گریز پا
دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخل شب سے چاندنی کی پتیاں
بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں
ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزہ پہ دو پرچھائیاں
جس طرح سپنے کے جھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جا گرے
ناگہاں کجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نورانی دیے
جس طرح شور جرس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
اب سلگتے رہ گئے تھے، چھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی
آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اس نے آخر کیوں بنا تھا بہکی نظروں سے حسیں چاہت کا جال
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.