ہابیل
اولیں ذائقۂ خوں سے تھی لب تلخ وہ خاک
جس پہ میں ٹوٹی ہوئی شاخ کے مانند گرا
کن شراروں کی دہک دیدۂ قابیل میں تھی
وہ حسد تھا کہ ہوس طیش کہ نفرت کیا تھا
اور پھر میرے بدن میرے لہو میں اترا
اولیں بے بسیٔ کرب فنا کا ادراک
بجھ گئی شمع نظر مٹ گئے آواز کے نقش
بوئے گل، جوئے صبا، نجم سحر کچھ نہ رہا
لرزش موج تنفس کے کرشمے تھے تمام
روئے جاناں غم جاں دیدۂ تر کچھ نہ رہا
نسل در نسل یوں ہی میرے لہو کا پیاسا
نار نمرود بھی وہ نخوت فرعون بھی وہ
جام زہراب بھی وہ تیشہ بھی وہ دار بھی وہ
خنجر شمر بھی وہ ترکش چنگیز بھی وہ
ایشیا میں کبھی افریقہ میں خوں ریز بھی وہ
اور قابیل سے ارشاد کیا تھا تو نے
خون ہابیل کی ان ذروں سے بو آتی ہے
پھیل کر اب وہی بو سارے جہاں پر ہے محیط
کیا یہ بو تا بہ ابد میرا مقدر ہوگی
کیا ترے اذن سے قابیل کی خو قائم ہے
کیا یہ خو تا بہ ابد میرا مقدر ہوگی
- کتاب : sar-e-shaam se pas-e-harf tak (Pg. 245)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.