حاجی بھائی پانی والا
دونوں مشکیزے لبا لب
ایک چمبک کی طرح
اپنی جانب کھینچتے رہتے اسے
فیل بندی قہر تھی
مرد گاہک مسخری کرتے ہوئے ڈرتے
ذرا محتاط رہتے
جھرجھری کا سوانگ بھرتے
عورتیں مغموم آنکھوں میں
ترس کاڑھے ہوئے
اپنے بچوں پر برس پڑتیں
اگر وہ بد لحاظ
بھولپن سے پوچھ لیتے
کیوں نہیں
اس کے فلانوں کی طرح
ان کے فلانے کیوں نہیں
وہ خدائی فرش پر اکڑوں
کبھی گوتم کے آسن میں کبھی
تہمد سے باہر پاؤں پھیلا کے
اکڑ کر بیٹھتا
بار بار اس واسطے پہلو بدلتا
جگل گری کرتا کہ پیروں میں
ہمیشہ جھنجھنی کے جھنجنے بجتے
عجب اک مستقل سی بیکلی رہتی
وہ غبارے پھٹے پڑتے تھے
جن پر تانت سی نیلی رگیں پھولی ہوئی
ننھے منے کیچوؤں کی طرح
کنڈلی مار کے بیٹھی ہوئی تھیں
جس طرح کنگھا چھپانے کے لیے
اس نے سر سید کی داڑھی ہو بہ ہو
پلپلے تربوز پر
اس کی لنگی میز پوش ایسی پڑی رہتی
اس مرض کا فائدہ اتنا ہوا
اپنی چوکی سے فراغت پا گیا
یہ کہ ردی پھاڑ کر
اپنے تھیلے اپنی گودی میں سمیٹے
وہ انہی پر
ساری پڑیائیں بناتا
لونگ دھنیہ دارچینی جائے پھل اور تیج پات
سب مسالے اس کی رانوں کے مزے
چکھے ہوئے تھے
غیبتی جل ککڑے ایسے تھے کہ بس
صاف کہتے اس نے کعبے کی زیارت ہی
نہیں کی ہے
فقط اجمیر جا کر لوٹ آیا
بلکہ یہ بھی مشتبہ
اس پہاڑی سے اترنا
دوسری کا قصد کرنا
حاجیوں کی دھینگا مشتی لپا ڈگی ریل پیل
پھر گناہوں کے پٹارے کی طرح لٹکی ہوئی
فالتو گٹھری الگ
اس کی حالت غیر تھی
حج تو ممکن ہی نہیں
جتنے حاسد اتنی باتیں
ایک روز
وہ الہنوں سے نڈھال
موت کی بانہوں میں بانہیں ڈال کے
اپنے آقا کی طرف
اپنے راز اپنے مفاعیلن اٹھائے چل پڑا
کسی ملک میں ایک تھا بادشاہ
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.