حاضر غائب
اشارہ کس نے توڑا ہے
کہ چوراہے کے بیچوں بیچ
ہم اک دوسرے سے اس طرح ٹکرا گئے ہیں
یہ چاروں راستے
ہم نے محبت کی کدالوں سے تراشے تھے
ہمیں پھولوں پہ چلنے کا اشارہ چاہیے تھا
مگر رشتوں کے بادل جو کبھی دل پر برستے تھے
تو ہریالی کا موسم چاروں جانب پھیل جاتا تھا
وہ بادل کانچ کے مانند یوں ٹوٹے فضاؤں میں
کہ ہر رستا نکیلی کرچیوں کی سرمئی بارش میں بھیگا ہے
یہ چوراہا
کہ جو اپنے ملن کا استعارہ تھا
تماشا گاہ میں بدلا
مسافر ایک دوجے کے مقابل آ ہی جاتے ہیں
مگر اپنا سفر کیسے تصادم میں ڈھلا آخر
اسے اک حادثے کی شکل کیسے اور کس نے دی
سفر کو سانحے کا پیرہن پہنا کے
چوراہے کے بیچوں بیچ استادہ کیا جس نے
اسے ہم کس طرح ڈھونڈیں
اسے ہم کیسے پہچانیں
کہ ہر سو خوش نما چہرے کچومر ہو کے بکھرے ہیں
وہ ملغوبہ جو اس اندھے تصادم کا نتیجہ ہے
اسے کس شکل میں ڈھالیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.