اب کوئی پھول مرے درد کے دریا میں نہیں
اب کوئی زخم مرے ذہن کے صحرا میں نہیں
نہ کسی جنت ارضی کا حوالہ مجھ سے
نہ جہنم کا دہکتا ہوا شعلہ کوئی
میرے احساس کے پردے پہ رواں رہتا ہے
میں کہاں ہوں؟ مجھے معلوم نہیں!!
بولتے لفظ بھی خاموش تمنائی ہیں
جاگتے خواب کی تعبیر یہی ہے شاید
میری تقدیر یہی ہے شاید
میں جسے دیکھنا چاہوں مجھے اندھا کہہ دے!
کون ہوں میں مجھے اے دیدۂ بینا کہہ دے!
زندگی کیوں کسی مفہوم سے عاری ہی رہی
دھوپ میں جسم سلگتے ہی چلے جاتے ہیں
موت کا خوف سمٹتا ہے بکھر جاتا ہے
فاختہ جیسے کسی پیڑ کی شاخوں میں چھپی بیٹھی ہو
سانس سینے میں کسی تیر کی مانند اتر جاتی ہے
منہ چھپائے ہوئے سورج بھی فنا کی تصویر
پیاس بن کر کسی دریا میں اتر جاتا ہے
آس نے یاس کے مہتاب سے خوشبو مانگی
چہرۂ گل پہ کسی قطرۂ شبنم کی دعا اتری ہے
- کتاب : siip-volume-46 (Pg. 140)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.