ہم اہل خوف
یہی تھکن کہ جو ان بستیوں پہ چھائی ہے
اتر نہ جائے پرندوں کے شہپروں میں بھی
یہ ٹوٹے پھوٹے مکانات اونگھتے چھپر
چراغ شام کی دھندلی سی روشنی کے امیں
نہ ان کا یار کوئی ہے نہ کوئی نکتہ چیں
نہ جانے کب کوئی دست ستم ادھر آ جائے
اور اس ذرا سی بچی روشنی کو کھا جائے
یہ کھلکھلاتے ہوئے ہنستے مسکراتے لوگ
بسوں میں ریلوں میں منزل کی سمت جاتے لوگ
کوئی دھماکہ انہیں جانے کب اڑا جائے
لہو کے دھبوں پہ افسوس کرتا حاکم شہر
اور اس کے بعد محبت پہ چند تقریریں
جو اہل شہر کی پیشانیوں پہ روشن ہیں
ملال یہ ہے کہ اس کو کوئی نہ دیکھے گا
ہم اہل خوف کے سینوں میں جو دھڑکتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.