ہم بے وطن خوابوں کے جولاہے ہیں
بہت سی آواز جمع کر کے
ایک چیخ بنائی جا سکتی ہے
بہت تھوڑے لفظوں سے
ایک باغی نظم بنائی جا سکتی ہے
لیکن
زندہ قبرستان میں ایک نظم کا کتبہ کافی نہیں
قبریں دم سادھے پڑی ہیں
ہماری مائیں مردہ بچوں کو جنم دے رہی ہیں
لاشیں شناخت کرتے ہوئے ہجوم اپنا چہرہ
بھول جاتا ہے!
ہم زندگی سے صحبت کرنے نکلے تھے
اور زندگی نے ہمارے خصیوں سے کینچے بنا لیے
ہمارے لہو میں چیونٹیاں رینگتی ہیں
مگر ہم اپنی مرضی سے کھجلی تک نہیں کر سکتے
قطار میں کھڑے کھڑے ہم دوسروں سے مختلف کیسے ہو گئے!!!
زندگی میزان ہوتی تو ہم اس کے پلڑے اپنے وجودوں سے بھر دیتے
مگر کیا کریں کہ ہم خود اپنی نظروں میں بہت بے وزن تھے
ہتھیلیوں میں سوراخ ہوں تو آنکھیں کہاں سنبھالیں
ہم نے صرف چہرے نبھائے رشتے نہیں
پیاسی زمینوں میں آنسو کاشت کر کے بھی
بوند بھر ہریالی نہیں کھلی
ہم ساری عمر اپنے خوابوں کے جولاہے بنے رہے
اور اپنے بچوں کے لیے ایک سایہ دار پرچم نہ بن سکے
ہماری مٹی محض مٹی رہی
کبھی وطن نہ بن پائی!!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.