ہم بھاگتے رہتے ہیں
اک خواب سے
اور اس خواب سے وابستہ ہر دکھ سے
ڈرتے رہتے ہیں
ہم جاگتے رہتے ہیں
ہر رات کسی خود ساختہ الجھن کو سلجھانے کی خاطر ہم خود سے الجھتے ہیں
پھر دن چڑھ جاتا ہے ہم دیکھتے رہتے ہیں وہ سب کچھ جو ہم دیکھ نہیں سکتے
ہیں لیکن دیکھنا پڑتا ہے یہ آنکھیں بے بس ہو کر دیکھتی رہتی ہیں اور ہم یہ
سوچتے ہیں بینائی بھی کیسی مجبوری ہے بولتے رہتے ہیں وہ سب کچھ جو ہم اور
کسی سے کہہ نہیں پاتے اپنے آپ سے کہہ دیتے ہیں کبھی کبھی تو کوئی پلٹ کر
پوچھ بھی لیتا ہے کیا مجھ سے کہا کچھ بھولتے رہتے ہیں فون فریج میں اور
چائے چولھے پر رکھ کر بھول گئے تو ایسی کوئی بات نہیں ہے کبھی کبھی بس
دھیان کہیں بٹ جائے تو پھر چلتے چلتے رستا اوجھل ہو جاتا ہے ایمرجنسی
بریک لگانی پڑ جاتی ہے اپنے آپ کو خود ہی ڈھونڈ کے لانا ہو تو تھوڑی
پریشانی ہوتی ہے ہم سنتے رہتے ہیں وہ آوازیں جو کسی چہرے سے نہیں ملتیں
وہ باتیں جو ہونٹ ادا نہیں کر پاتے اور کان نہیں سن سکتے ہیں ہم سن
لیتے ہیں ہم بھیگتے رہتے ہیں اندر ہی اندر آنکھوں میں اور حلق میں اور
سینے میں کہیں اک شعلہ ہے جو سرد نہیں پڑتا ہے کبھی ہم لڑتے رہتے ہیں
اپنے آپ سے اپنی بینائی سے گویائی سے اور سماعت سے ہم مرتے رہتے ہیں ہر
روز کہیں اور پھر زندہ ہو جاتے ہیں اور پھر مرتے ہیں مرنے اور زندہ ہونے
کا کھیل کسی دن ختم ہوا تو مر جائیں گے