Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم زاد

احمد شمیم

ہم زاد

احمد شمیم

MORE BYاحمد شمیم

    برق پا لمحوں کی اک زنجیر میں جکڑا ہوا

    وہ شکستہ پا انہی رستوں سے گزرا

    اور نادیدہ خداؤں کا ہجوم

    خندہ زن آنکھوں سے اس کی نارسائی کا تماشا دیکھ

    کر کہتا رہا

    تو نے چاہا تھا مگر تیرے مقدر میں نہ تھا

    جیسے اس کی بے بسی میں وہ کبھی شامل نہ تھے

    وہ کہاں گم ہو گیا

    کوئی نقش پا نہیں جس کی زباں

    ایک حرف ناشنیدہ ہی کہے

    اور میں دن رات کے صحرا میں

    اس کو ڈھونڈھ کر پانے کی کوئی آرزو لے چلوں

    راستوں پر کوئی نقش پا نہیں

    کوئی نشاں باقی نہیں

    نقش گر لمحوں کی ہر تحریر

    دست بے نشاں کے لمس قاتل کا فسانہ بن گئی

    شہر کے لوگوں

    تمہارے روزن چاک جگر بھی بند ہیں

    تم میں ہر اک نے کسی خشت تمنا

    سنگ‌ نفرت سے

    یہ چشم روزن دل بند کر کے

    آخری امید کا سورج بجھا کر رکھ دیا

    اور اب لذات کی دنیا میں گم

    سود‌ و سودا کی اسیری پر

    رضامند کا طوق بے نشاں پہنے ہوئے

    خوش ہو کہ جنت مل گئی

    میں اکیلا

    تنگ راہوں سنگ دل سڑکوں پہ

    اس کو ڈھونڈنے کیسے چلوں

    کوئی نقش پا نہیں ملتا مجھے

    اور سارا شہر یہ گویا درختوں کا بھرا جنگل

    فقط شور عبث کا سلسلہ ہے

    کوئی حرف ناشنیدہ سے نہیں واقف یہاں

    لحظہ لحظ تیرہ تر ہوتی ہوئی یہ شام بھی

    رات کے قلزم میں گر کر بے نشاں ہو جائے گی

    اور اک موج فنا اس رات سے تاریک تر

    اس بھرے جنگل چمکتے شہر پر چھا جائے گی

    ایک میں ہوں راحت خواب شبینہ

    میری قسمت میں نہیں

    دوپہر کی دھوپ

    شب کی تیرگی

    میرا مقدر بن گئی

    رات کو پھر

    سعئ لا حاصل کا زخم لا دوا

    ان سیہ رستوں پہ اس کی جستجو کرنے مجھے لے آئے گا

    اونگھی سڑکوں پہ اپنی چاپ سن کر

    پھر مرے دل کا وہی زخم کہن

    صد زبان ہو جائے گا

    کون میری داستاں سن لے کہ میں

    اس کو پانے کی تمنا کے طفیل

    اس بھرے جنگل میں تنہا ہوں

    کوئی بھی رازداں میرا نہیں

    دوپہر کی دھوپ میں

    اس نے کیوں یوں مضمحل نظروں سے دیکھا تھا مجھے

    اس کی آنکھوں میں سسکتی روح

    کیوں میرے لئے چاک جگر بن کر رہی

    کاش یہ چاک جگر چاک گریباں بن سکے

    تاکہ میری سعئ لا حاصل کا زخم لا دوا

    لذت آوارگی کا طعنۂ قاتل نہ بن جائے کہیں

    شہر والے خوش ہیں

    چشم روزن دل اب کسی خشت تمنا

    تودۂ امید سنگ آرزو سے بند ہے

    ایک میں ہوں میرا چاک دل

    کسی سوزن سے سلتا ہی نہیں

    یہ کسی سنگ تمنا تودۂ امید سے بھرتا نہیں

    اور جس کی جستجو میں رات دن

    برگ آوارہ بنا پھرتا ہوں میں

    اس کا نقش پا کہیں ملتا نہیں

    اس کا نقش پا کہیں ملتا نہیں

    مأخذ :
    • کتاب : Pakistani Adab (Pg. 83)
    • Author : Dr. Rashid Amjad
    • مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
    • اشاعت : 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے