ہمارے دیس کی برسات
وہ کالے کالے بادل ہر طرف گھر گھر کے چھاتے ہیں
فلک پر خوش نما اک شامیانہ سا سجاتے ہیں
گرج کر اپنی آمد کے وہ نقارے بجاتے ہیں
وہ بن کر برق پرتو قدرت حق کا دکھاتے ہیں
وہ کیسی ان کی دل کش دل ربایانہ روانی ہے
ہمارے دیس کی برسات بھی کیسی سہانی ہے
ہواؤں کا وہ چل چل کر کلی دل کی کھلا دینا
وہ غنچوں کا مسرت سے اچھل کر مسکرا دینا
وہ پتوں کا خوشی سے جھوم کر تالی بجا دینا
وہ منظر اک نیا بارش کی آمد کا دکھا دینا
وہ بادل ہیں وہ بجلی ہے وہ سبزہ ہے وہ پانی ہے
ہمارے دیس کی برسات بھی کیسی سہانی ہے
وہ ننھی ننھی بوندوں کا وہ ہلکی پھوار کا آنا
وہ گرمی کی تپش میں سردیوں کا لطف دکھلانا
وہ کوئل کا چمن میں کوکنا قمری کا اترانا
وہ موروں کا تھرکنا اور پپیہوں کا وہ پی گانا
غرض ہر ہر طرف عیش و طرب ہے شادمانی ہے
ہمارے دیس کی برسات بھی کیسی سہانی ہے
وہ گلزاروں میں جھولے وہ سہانے دل فزا گانے
خوشی کے چہچہے وہ قہقہے سکھیوں کے مستانے
وہ پکوانوں کی لذت وہ مزے کے چٹپٹے کھانے
وہ یاروں دوستوں کی شوخیاں الفت کے افسانے
وہ چہلیں یاد بھی جن کی سرور زندگانی ہے
ہمارے دیس کی برسات بھی کیسی سہانی ہے
وہ دریاؤں کے طوفان اور وہ شورش آبشاروں کی
سہانے گیت چشموں کے وہ خوشبو سبزہ زاروں کی
ہری مخمل کی پیاری وردیاں وہ کوہساروں کی
یہ منظر دیکھ کر وہ چشمکیں پھر چاند تاروں کی
مقابل جن کے آکر کہکشاں نے ہار مانی ہے
ہمارے دیس کی برسات بھی کیسی سہانی ہے
خدا وہ دن کرے ایسے بھی دن اس دیس کے آئیں
وطن کے رہنے والے ایک دل آپس میں ہو جائیں
محبت کا وہ بن کر ابر سارے دیس پر چھائیں
محبت ہی کے موتی بن کے ہر جانب برس جائیں
کہیں پھر مل کے ہم اللہ کی یہ مہربانی ہے
ہمارے دیس کی برسات بھی کیسی سہانی ہے
مزا ہو مہر اور الفت کا بادل ہر طرف چھائے
مزا جب ہو محبت ہی کا نغمہ کان میں آئے
فسادوں اور جھگڑوں کا یہ دکھ ہر قلب سے جائے
مزا جب ہو کہ ہر چھوٹا بڑا یہ شعر دہرائے
بس اپنا کام اب نیرؔ وطن کی پاسبانی ہے
ہمارے دیس کی برسات بھی کیسی سہانی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.