ہمارے دن گزر گئے
گھروں میں کوئی پیڑ ہے نہ موتیے کی بیل ہے
نہ دال کو بگھارتی ہوئی جوان لڑکیاں
کہ سب چلن بدل گیا
فراغتوں کے دن گئے
گئیں وہ کنج وقت کی سفید ریش ساعتیں
شجر کی راہداریاں اجڑ گئیں
گھنی دوپہر میں کھلی کھلی سی دھوپ کا سفر بھی رک گیا
گلی کے سرخ موڑ پر
کنار شام نقرئی لباس میں جمالتی ہوئی شریر اپسرا نہیں رہی
وہ ریش میں گندھے ہوئے
بدن کا خم زمین پر اتارتے ہوئے ضعیف لاٹھیوں پہ ڈولتے
خمیدہ سر نہیں رہے
وہ ٹائروں سے کھیلتا غبار اڑاتا بچپنا
وہ سانولے حجاب میں سفید مسکراہٹیں
حیا کی سبز کترنیں کہ جن پہ سرخ موتیوں کا نیلگوں لحاف تھا
نہ جانے کون سمت ہیں
جلے بجھے سے دیپ ہیں نظر کی رہ گزار میں
ذرا ذرا سی روشنی کہ جس میں خام عجلتیں
بدن کے داغ سینچتیں
جھکے جھکے مزاج پر تنی تنی سی الجھنیں
دلیل سے ورا ہے ساری گفتگو کا سانحہ
ذرا ذرا سی زندگی بڑا بڑا سا خوف ہے
لبوں کے سرخ بام پر ملال رفتگاں نہیں
فراستوں کا قحط ہے
ملامتوں کا عہد ہے
ہمیں فریب زندگی ذرا سا کام کیا پڑا
ہمارے دن گزر گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.