ہمارے سانس جھوٹے ہیں
مدار وقت سے اک جرعۂ نایاب لیتے ہیں
یوں ہی جیتے چلے جاتے ہیں بس لمحوں کی دھڑکن میں
خزاں کا گیت سنتے ہیں
بہار زندگانی میں
خمار رائیگانی میں
ہمارے پاؤں رستے ماپتے ہیں شہر و صحرا کے
مگر منزل نہیں ملتی
سفر تو جاری رہتا ہے
پھر آخر ایک دن جب وقت باگیں کھینچ لیتا ہے
تو کھلتا ہے
اسی بہتے ہوئے دریا میں اپنے خواب کا سونا بکھرنا ہے
ہمارے جسم کا سودا اسی مٹی سے ہونا ہے
فنا کا ذائقہ چکھتے ہوئے
اس قلزم ہستی میں ہم کو ڈوب جانا ہے
جسے جیون سمجھتے تھے سراسر ایک دھوکا ہے
یہی لمحہ بھبھوکا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.