ہمارے شجرے بکھر گئے ہیں
گماں کی بے رنگ ساعتوں میں
نواح کرب و بلا سے دربار شام تک ہم
لہو کی اک ایک بوند کا سب خراج دے کر
تمام قرضے چکاتے آئے
شکستہ دہلیز
لہو کی محراب
سناں کا منبر
ہماری عزت بڑھاتے آئے
وہ ہم ہی تھے جو قیام کرتے
رکوع میں جھکتے
زکوٰۃ دے کر
خود اپنے حصے کا طعام دے کر
درود و صلوٰۃ پڑھتے آئے
وہ ہم تھے جو گھروں سے نکلے
تو پھر ابد تک
پلٹ کے گھر کی طرف نہ دیکھا
ستارۂ سحری گواہ ہے
کہ ہم نے انساں کو
چھاؤں دیتے
گھنیرے پیڑوں پہ خون چھڑکا
جھلستے صحرا کو تازگی دی
دہکتی دھرتی کو زندگی دی
مگر وہ تسکیں کا پل کہاں ہے
بھنور بھنور ہے زمانہ سارا
وجود اپنے کدھر گئے ہیں
ہمارے شجرے بکھر گئے ہیں
- کتاب : Raah-daari mein gunjti nazm (rekhta website) (Pg. 308)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.