ہمیں مجرم نہیں کہنا
وہی ہیں فاصلے اور قافلے پھر بھی رواں ہیں
وہی ہیں سلسلے اور دائرے بھی بے کراں ہیں
یہ ہم جو ایک بوسیدہ عمارت کے کھنڈر سے پھول چننے جا رہے تھے
ہمارا خواب تھا
ہم دہر کو خوشبو سے بھرنا چاہتے تھے
مگر ہم ہڈیوں کی راکھ لے کر آ گئے ہیں
یہ ہم خوابوں کے دریاؤں سے اک جھرنا
بس اک چھوٹا سا جھرنا چاہتے تھے
جو ہمارے دشت کی بے آب مٹی کو ذرا نم آشنا کر دے
مگر جانے کہاں سے ہم چتا کی آگ لے آئے
ہمارے دل کا یہ جوالا مکھی پھٹنے کو آیا ہے
کبھی بھی ہم نے لمبے فاصلوں سے سرخیاں دیکھیں
تو ہم اس سمت کو لپکے
مگر رستوں کے پیچ و خم میں ہی اتنا سمے بیتا
کہ ہم زردی کو چہروں پر لپیٹے لوٹ آئے
وہی ہیں سلسلے اور فاصلے اور اس پہ اپنے دل میں چلنے کی تمنا بھی
مگر عمر معین کی بچی پونجی تو بس چند ایک لمحے ہے
یہ سچ ہے ہم کبھی بھی عشق کے معیار پر پورے نہیں اترے
مگر ایسا نہیں کرنا
ہمیں مجرم نہیں کہنا
کہ ہم گرہ مصائب پار کرنے سے کبھی منکر نہیں ٹھہرے
خدایا ہم کو اب تیری گواہی کی ضرورت ہے
ہمیں پھر سے تباہی کی ضرورت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.