ہمیں یقین ہے
درخت ہے یہ خزاں گرفتہ
سلگتی ویرانیوں
دہکتے سکوت کی اک دبیز چادر کو اوڑھے
حیران و مضطرب سا
کہ جیسے منزل پہ لٹنے والا کوئی مسافر
بہ باطن افسردہ خاطر
اور مطمئن بظاہر
کہ عالم بے بضاعتی ہے
نہ پھل ہے کوئی نہ غنچہ و گل نہ سبز پتے
نہ وہ لچکتی مہکتی شاخیں
ہیں سر سے پا تک خزاں کی تاریکیاں مسلط
کرن کرن مر چکی
امیدیں دھواں دھواں ہیں
بجھا بجھا ہے درخت
لیکن بجھے بجھے سے درخت میں سبز روشنی سو رہی ہے اب بھی
ہمیں یقیں ہے
بہار کی رت جب آئے گی
تو جگائے گی سبز روشنی کو
درخت پھر جگمگا اٹھے گا
حیات کی سبز روشنی سے
ہمیں یقیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.