کتابیں میرا جنگل ہیں
جنہیں میں کاٹ کر اب بارہویں زینے پر بیٹھا ہوں
معافی کے ہیولوں میں چمکتی صورتوں سے دور تنہا
حرف کے صدمات سہتا ہوں
کہ میں خود آگہی کے بھاری سانسوں کا سمندر ہوں
جسے نمکین پانی کی سزا آبادیوں سے
بادبان کی طرف کافی دور رکھتی ہے
کتابیں میرا جنگل ہیں
جہاں پر نفرتوں کی تیز دھڑکن
برتری کی چیختی آواز کی دستک نہیں
جو صبح کو میری رگوں میں باؤلے پن کے
چمکتے شوخ سورج کو جگائے
میں پھٹی آنکھوں سے جلتے راز کو سڑکوں پہ عریاں ملوں
کتابیں میرا ایندھن ہیں
میں کتابوں میں سلگتی آگ ہوں
جلتا ہوا کاغذ
دھوئیں میں پھیلتی تصویر ہوں
میں ان کتابوں کا ارادہ ہوں
جسے تحریر کی خواہش دماغوں میں ہراساں ہے
ہراساں ہیں
کتابیں میری آنکھیں ہیں
مگر میں تو وہ کھلتا بند ہوتا چیختا در ہوں
جو کبھی سے کہکشاں کا منتظر ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.