حریف وصال
عجیب شب تھی
جو ایک پل میں سمٹ گئی تھی
عجیب پل تھا
جو سال ہا سال کی مسافت پہ پرفشاں تھا
اور اس کے سائے میں ایک موسم ٹھہر گیا تھا
(کسی کے دل میں تھا کیا کسی کو خبر نہیں تھی)
بس ایک عالم سپردگی کا
بس ایک دریائے تشنگی تھا کہ جس کی موجیں
امڈ امڈ کر بکھر رہی تھیں
کھلے سمندر میں ڈوب جانے کی آرزو میں مچل رہی تھیں
خیال حسن خیال میں گم
نگاہ خواب جمال میں گم
نہ جانے کس خواب کی یہ تعبیر تھی کہ آنکھوں میں جاگتی تھی
نہ جانے کس آرزو کی تکمیل ہو رہی تھی
کہ آنکھ سے آنکھ
لب سے لب محو گفتگو تھے
مگر بس اک بات معتبر تھی
کسی کے دل میں تھا کیا کسی کو خبر نہیں تھی
وہ لمحہ گزرا کہ سحر ٹوٹا
یکا یک احساس عمر جاگا
ہر ایک چہرہ خود اپنی آنکھوں میں آئینہ ہو گیا ہو جیسے
طلسم سم سم سے جس خزانے کا در کھلا تھا
وہ یک بہ یک کھو گیا ہو جیسے
عجیب تھا ایک چور دل میں
جو اس خزانے کا پاسباں تھا
جو سائے کی طرح درمیاں تھا
تقاضۂ ماہ و سال تھا وہ؟
کہ دل کی گہرائیوں میں بے دار
کوئی خوف مآل تھا وہ؟
عجیب سا اک خیال تھا وہ
ہجوم جذبات میں در آیا تھا جو حریف وصال بن کر
جو دل کی دھڑکن میں رک گیا تھا ضمیر کا اک سوال بن کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.