حسین دنیا اجڑ گئی تو
حسین دنیا اجڑ گئی تو اگر کہیں یہ بگڑ گئی تو
گماں سے آگے نکل گئی تو گماں سے آگے گمان کر لو
اٹھاؤ پردہ اور دیکھ لو خود زمیں فروشی کے روپ کتنے
نقاب پوشوں کی بھیڑ میں سب ہمارے کل کے یہ سوداگر ہیں
ان ہی کی حرص و ہوس کے باعث ہماری دنیا اجڑ رہی ہے
گرم ہواؤں میں گھر رہی ہے
بدلتے موسم کا استعارہ زمیں کو تاراج کر رہا ہے
پہاڑ و دریا نگلنے والے شجر فروشی میں لگ گئے ہیں
وہ خوش نما گیت گاتے پنچھی اب اپنے رستے بدل رہے ہیں
شکاری آنکھوں سے بچ رہے ہیں
یہ دریا گرمی سے جل رہے ہیں پہاڑ کروٹ بدل رہے ہیں
زمیں کا زیور اتر رہا ہے اور جنگلوں میں غدر مچا ہے
سلگتے صحرا بسانے والو نرالی دنیا سجانے والو
سمندروں پر شہر بناؤ فلک پہ تم کہکشاں سجاؤ جہان نو خوب تر بساؤ
مگر زمیں کو نہ بھول جانا لٹا رہی ہے جو آب و دانہ
حسین دنیا اجڑ گئی تو اگر کہیں یہ بگڑ گئی تو گماں سے آگے نکل گئی تو
نہ تم رہو گے نہ ہم رہیں گے نہ موسموں کے یہ رنگ رہیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.