حساس
آخر وہ
کس کی غلطی تھی
اس بوڑھے کی
کنڈکٹر کی
یا پھر اس بس کے ڈرائیور کی
جس کی بھی ہو
لیکن اس میں
میرا تو کوئی دوش نہیں تھا
میں تو باقی
سب لوگوں کی طرح
مسافر تھا اس بس کا
جس کے نیچے
کہیں اچانک سے
وہ بوڑھا آ جاتا ہے
اس کو
بس کے
نیچے آتے بھی تو نہ دیکھا تھا میں نے
وہ تو بس کے
بریک سے میری
نیند کھلی اور
شور سماعت سے ٹکرایا
تب کھڑکی سے جھانکا تھا میں
ادھر ادھر
بکھری
سبزی کے
ارد گرد
وہ دھار
لہو کی
سانپ سریکھا
رینگ رہی تھی
اور گلے میں
شاید اس کے
چیخ کہیں پر پھنسی ہوئی تھی
اس منظر میں
سیٹ سے اپنی
ہل تک نہ پایا تھا میں تو
ہل کر بھی
اب ہونا کیا تھا
آخر میں کر کیا سکتا تھا
پھر کیوں
مجھ کو
نیند نہیں آتی اس دن سے
کھانا کھانے
بیٹھتا ہوں تو
اس بوڑھے کا
کربناک وہ
لہو اگلنے والا چہرہ
سامنے میرے آ جاتا ہے
اور پھر
اس کے بعد
نوالہ
مرے گلے سے
الٹی بن باہر آتا ہے
اور
مانس کو
پھاڑ کے
باہر نکلی
اس بوڑھے کی ہڈی
میرے دل میں دھنس جاتی ہیں
کیوں ناکردہ جرم کا یہ احساس مرے اندر بیٹھا ہے
کیا اس کو میں نے مارا ہے
اس کی موت مری غلطی ہے
تھوڑا بھی
حساس نہیں ہوتا ہے کوئی
لوگوں کو
احساس نہیں ہوتا ہے کوئی
مجھ سے سب
بس یہ کہتے ہیں
لوگ تو
مرتے ہی رہتے ہیں
کون بھلا پروا کرتا ہے
تم ہی
خود کو قید کیے ہو اس منظر میں
اس منظر سے
باہر آؤ
مٹی ڈالو
دھواں اڑاؤ
لیکن
میں کیسے
سمجھاؤں
کہ اس کا
آسیب مرے
خوابوں میں آ کر
روز یہی کہتا رہتا ہے
مجھ پر یہ احساں کروا دو
گھر پر میرے
بیوی بچہ
بھوکے ہوں گے
ان تک وہ سبزی بھجوا دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.