ہوا کے دوش پہ
وہ ڈھیر کانچ کا تھا
کسی نے راکھ سمجھ کر جسے ٹٹولا تھا
عجیب رنگ تھے رقصاں نگاہ کے آگے
ہتھیلی رسنے لگی تو گمان سا گزرا
کہیں یہ خون کے چھینٹوں کی سرخیاں تو نہیں
مگر وہ درد کہاں ہے جو سکھ نگلتا ہے
جو جسم و جان میں اترا ہے اب تھکن بن کر
کہیں سے آہ و بکا کی صدائیں آتی ہیں
یہ نیم اندھیرا بڑا کربناک لگتا ہے
بجھے ہوئے وہ شرارے ہیں یا کوئی آہو
پلٹ کے دیکھ تو لے
راکھ رنج کانچ
کہیں چبھ نہ جائیں آنکھوں میں
یہ وقت جس کے پلٹنے کی آرزو لے کر
ہوا کے دوش پہ آہیں اڑائے جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.