حوا کی بیٹی
شدت افلاس سے جب زندگی تھی تجھ پہ تنگ
اشتہا کے ساتھ تھی جب غیرت و عصمت کی جنگ
گھات میں تیری رہا یہ خود غرض سرمایہ دار
کھیلتا ہے جو برابر نوع انساں کا شکار
رفتہ رفتہ لوٹ لی تیری متاع آبرو
خوب چوسا تیری رگ رگ سے جوانی کا لہو
کھیلتے ہیں آج بھی تجھ سے یہی سرمایہ دار
یہ تمدن کے خدا تہذیب کے پروردگار
سامنے دنیا کے تف کرتے ہیں تیرے نام پر
خلوتوں میں جو ترے قدموں پہ رکھ دیتے ہیں سر
راستے میں دن کو لے سکتے نہیں تیرا سلام
رات کو جو تیرے ہاتھوں سے چڑھا جاتے ہیں جام
تیرے کوچہ سے جنہیں ہو کر گزرنا ہے گناہ
گرم ان کی سانس سے رہتی ہے تیری خواب گاہ
محفلوں میں تجھ سے کر سکتے نہیں جو گفتگو
تیرے آنچل میں بندھی ہے ان کی جھوٹی آبرو
پیٹ کی خاطر اگر تو بیچتی ہے جسم آج
کون ہے نفرت سے تجھ کو دیکھنے والا سماج
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.