تمہیں یہ غم ہے کہ اب چٹھیاں نہیں آتیں
ہماری سوچو ہمیں ہچکیاں نہیں آتیں
چراغ شرما
کبھی بھی کیا سوچا ہے یہ تم نے
کہ جو ہے لہروں کا یوں مچلنا
ندی کا ساگر کی سمت چلنا
درخت کا بیج سے نکلنا
ہر ایک پل وقت کا بدلنا
یہ روز دن رات کا گزرنا
نہ ایک موسم کا بھی ٹھہرنا
اجالے دوڑے جو جا رہے ہیں
کہیں اندھیرے مٹا رہے ہیں
جو سالوں سالوں لگے ہوئے ہیں
سفر میں اب تک ڈٹے ہوئے ہیں
ستاروں سیاروں سب کی گردش
انہیں سمجھنے کی اپنی خواہش
دلوں کے دھڑکن کی ابتدا بھی
تمام منظر کی انتہا بھی
یہ سلسلہ سارا
سب تسلسل میں ہے جو
ہر کچھ
کسی کی ہچکی کا ہے نتیجہ
کہ یاد کرتا ہو کوئی بیتے زمانے کو
کائنات بھر میں
کہ جب نہیں تھا کچھ
اس سے پہلے
جو تھا وہ کیا تھا
وہ کیسا تھا
کیا وہ ایسا تھا
جیسا ہے ابھی سب
اک عرصے سے مجھ کو ہچکی آئی نہیں ہے
تم تو رہے مجھے یاد کرنے سے
آئینے کو تکتا ہوں روز
خود کو ہی یاد آ جاؤں میں کبھی تو
اور ایک ہچکی نکل پڑے پھر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.