ہجر اور وصال
ہوک اٹھتی ہے
جلا دیتی ہے جسم و جاں کو
دل لرز اٹھتا ہے
آنکھوں سے دھواں اٹھتا ہے
یہ دھواں
ہجر کا تاریک دھواں
پھیلتا جاتا ہے
بھر دیتا ہے اس وادی کو
جس کے ہر گوشے میں
اک نقش منور تھا ابھی
کوئی سایہ
کوئی خوشبو سے مہکتا سایہ
مجھ کو چھوتا تھا
مرے دل میں اترتا تھا ابھی
پیرہن میرا مہکتا ہے
ابھی تک
لیکن
کیسی تنہائی ہے
اور درد ہے خاموشی ہے
وہ جو آ جائے تو
یہ درد بھی آواز بنے
اور سویا ہوا یہ جسم
کوئی ساز بنے
ان گنت تار
جھنک جائیں جھنکتے ہی رہیں
جل اٹھیں چاند کئی
ذہن کے پردے پہ ابھی
اور اندر کے سمندر میں بھنور پڑ جائیں
پھر سے کھینچیں ہمیں اک بار
اسی شدت سے
ایک معدوم سے
تاریک سے نقطے کی طرف
وہی نقطہ جسے جانا بھی تو
انجانا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.