ہجرت کی صلیب
ندامت کی کڑی دھوپ میں نہائے ہوئے
زیست کے اس کڑے کوس پڑاؤ میں
جہاں سیپیاں روشنی کے دخول کے لیے دریچے کھولا نہیں کرتیں سوچتا ہوں
اس بھری دنیا میں تنہا کھڑا
خاکستر حسرتوں کی انگلی تھامے کمہلائے ہوئے
ارماں یوں بھی نکل سکتے تھے موتیوں کی چمک دمک کی چاہ میں در بہ در پھرے بغیر
رشتوں کے تانے بانے توڑ کر
ضعیف و نزار ماں باپ کی منتظر آنکھوں کو پیچھے چھوڑ کے
میں نے اس بڑے شہر کے چکاچوند کے پیچھے بھاگتے بھاگتے
کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
سوندھی مٹی کی مہک تازہ گندم کی خوشبو کنویں کا ٹھنڈا پانی
ممتا کا آنچل ماں جائیوں کا پیار بھائیوں کی رعب جمانے والی مار
کتنا ترساتی ہیں مجھے آج
کس قدر گھبراتا تھا میں خوباں سے نظر ملاتے ہوئے
آج اڑ جاتا ہوں میں
شرم آتی نہیں مجھے اپنے گناہ چھپاتے ہوئے
ان سب کا مجرم ہوں میں
اپنے ضمیر کے کٹگھرے میں کھڑا ہوں اپنی ہی روح کو مقید کیے
ہجرت کی صلیب اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے
کیلیں ساتھ رکھتا ہوں میں
کوئی ہے جو آ کر مجھے سولی پر چڑھائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.