حکایت شب
چنانچہ سر شام ہم سب کسی خاندان فرنگی سے بہر ملاقات نکلے
یہاں میرا ''ہم سب'' سے مطلب ہے وہ دوسرے ہم وطن اور پڑوسی کہ جو ملک افرنگ کی اس بڑی
جامعہ میں حصول زر علم و دانش کو آئے ہوئے تھے
''کسی'' سے یہ مطلب ہے ہم کو خبر تک نہیں تھی کہ ہم سب کہاں جا رہے ہیں
کہاں کس کو کس شخص کی میزبانی ملے گی
بہرحال یہ طائفہ اجنبی مہمانوں کا اک درمیانے سے گھر میزبانوں ہی کی رہنمائی میں پہونچا
وہاں ہم سے پہلے بھی کچھ لوگ موجود تھے
روایات بیگانگی فرنگی میں بستہ
طنابوں میں برفیلے ٹھٹھرے ہوئے یخ زدہ موسموں میں مقید
مگر جن کے چہروں پہ ان کی معیشت کے رسمی شگوفے کھلے تھے
تعارف کی اک مختصر تیز ٹھنڈی سی گردان
سو آخری نام کے آخری حرف کی ڈوبتی چند لہریں
سو آخری ہاتھ کے کھردرے چند ریزے
مرے حافظے میں تو کچھ بھی نہیں رہ گیا تھا
چنانچہ تعارف کے سنگین فرشوں کو اک بار پھر سے کریدا تو دیکھا
سطح سخت تھی اور ناخن بڑے نرم تھے
اس اثنا میں اک خانم میزبان دونوں ہاتھوں میں سینی اٹھائے
نبید مصفا و گل رنگ کے کچھ بلوریں پیالے سجائے
بصد ناز و انداز آئیں
ابھی اس نبید مصفا کے دو چار چکر ہوئے تھے
کہ بوسیدہ رسموں کی اونچی فصلیں
تعصب کے تاریک زنداں
تکلف کی چکنی منڈیریں
تصنع کی پرخار باڑھیں
سراسر یہ سب گر گئیں اور اجنبی ہم وطن بن گئے
- کتاب : naquush (Pg. 245)
- اشاعت : 1979
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.