حنا نابستہ ہتھیلیوں کے نام
دھنک اوڑھ کر پھر رہی ہو مگر
تم نے سوچا کبھی
یہ ٹھنڈی پھواریں
تمہارے سلگتے بدن کو خنک باریاں دے سکیں گی
آج تک
کتنے تپتے ہوئے موسموں نے جلایا ہے تن کا شجر
زندگی کی کھلی مٹھیوں میں سبھی آندھیاں
بانجھ جذبات کی سرد ہوتی ہوئی راکھ بھرتی رہیں
درد کی سیپ میں ایک بھی بوند موتی نہیں بن سکی
دل کے کشکول میں ایک سکہ مسرت کا کھنکا نہیں
پیاسے ہونٹوں کے نم ساحلوں کے بدن
تشنگی کی جمی ریت پر کسمساتے رہے
پھول جلتی ہتھیلی کے کمھلا گئے
انگلیوں پر خزاں چھا گئی
زلف کی سب سیہ ناگنیں
کاشمیر اور شملے کی پگڈنڈیاں بن گئیں
بھیگی پلکوں پہ رکھے ہوئے سب چراغوں کو
بھوکی سحر کھا گئی
دھنک اوڑھ کر پھر رہی ہو مگر
تم نے سوچا کبھی
آج تک کتنی شہزادیاں
پانچویں سمت سے
آنے والے کسی شاہزادے کی امید میں
کالے دیوؤں کے
اندھے کنوؤں میں نظر بند ہیں
دھنک اوڑھ کر
یوں ہی کب تک پھرو گی بھلا
خدارا اٹھو
اپنی تقدیر کے منصفوں سے
یہ پوچھو ذرا
جھوٹی شان اور شوکت کے پتھر تلے
کب تلک ہاتھ مہندی سے
اور مانگ سست رنگ افشاں سے خالی رہے گی
وہ پرانی حویلی جو پرکھوں کی ہے
یا وہ تالاب کے پاس والی زمیں
یا
دسہری کی خوشبو سے مہکا ہوا باغ وہ
کیوں نہیں بیچتے
دھنک اوڑھ کر پھر رہی ہو مگر
یہ تو پوچھو ذرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.