حساب کم و بیش
میں کتاب غم ہستی کی ہوں تحریر کوئی
الجھی الجھی سی ہو پیچیدہ سی تفسیر کوئی
میں کہ اک جبر مسلسل میں پسا جاتا ہوں
دھندلی دھندلی سی عبارت میں بنا جاتا ہوں
جبر ایسا ہے کہ لمحوں کی خطائیں جیسے
بن گئیں صدیوں کی وہ ساری سزائیں جیسے
جبر کی حد بھی مقرر نہیں میری خاطر
یعنی میں سادہ مزاج اور وہ ظالم شاطر
پوچھتا بھی نہیں مجھ سے کہ ترا صبر ہے کیوں
اور وضاحت بھی نہیں اس کی کہ یہ جبر ہے کیوں
پہلے خوشبو مری گم گشتہ سی راہوں کی ملے
پھر سزا جو بھی ملے کردہ گناہوں کی ملے
میں وہ تحریر ہوں پڑھتا نہیں جس کو کوئی
اور پڑھ لے تو سمجھتا نہیں جس کو کوئی
رسم خط اجنبی جس کا وہ عبارت ہوں میں
جس کی بنیاد ہے خستہ وہ عمارت ہوں میں
مکڑیوں نے مرے اطراف بنے ہیں جالے
یہ ہیں جالے مرے سمجھے ہوئے دیکھے بھالے
چاندنی میری ہے اور نہ ہی ستارے میرے
میری کشتی ہے نہ دھارے نہ کنارے میرے
میرے ماتھے پہ تبسم کی شکن بھی ہوگی
اس کے پیچھے کئی رشتوں کی تھکن بھی ہوگی
میں پہنچ جاؤں گا اک روز زمیں کے نیچے
خاک ہی ہوگی پھر اس خاک نشیں کے نیچے
گرد جم جائے گی اک روز مری تربت پر
پھر تو میں رو بھی نہ پاؤں گا تری حرکت پر
ذہن ماؤف ہے اور دل ابھی شق ہے میرا
تجھ پہ اے عمر رواں تھوڑا تو حق ہے میرا
اے مری روح کے مالک یہ مقدر کر دے
میں غم زیست کا مارا مجھے پتھر کر دے
یا حساب کم و بیش آج برابر کر دے
یا مری روح مرے جسم سے باہر کر دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.