ہجوم ہٹ نہیں رہا
ہجوم جس کی ٹھوکروں کی ضرب سے
ہوا میں ہانپتا ہوا غبار چھٹ نہیں رہا
غبار میں جو خاک ہے زمین سے اڑی ہے یا
کسی کے سرد جسم سے خبر نہیں
خبر بھی ہو تو کیا بگاڑ لے کوئی
ہجوم ہٹ نہیں رہا
ابد کی شاخ سبز پر کھلا ہوا
شباب کا گلاب پتیوں میں بٹ نہیں رہا
ہجوم بے سکون ہے سوال مر نہیں رہا
سوال کا زبان سے جڑا ہوا جو تار ہے
وہ تار کٹ نہیں رہا
ہجوم ہٹ نہیں رہا
وہ مر گیا
ہجوم اس کی ماں کی بد دعا سے ڈر نہیں رہا
ہجوم اسے چٹختی پسلیوں کے بل گھسیٹتا چلا گیا
کسی نے اس کے زخم کو لعاب کا کفن دیا
کوئی بدن کو لاٹھیوں سے پیٹتا چلا گیا
قریب چند لوگ عکس بند کر رہے ہیں
کیمروں میں ایسے کھیل کو
کہ جس میں سب کھلاڑیوں کی آستیں پہ خون ہے
ہجوم کو جنون ہے ہجوم ہٹ نہیں رہا
میں منتظر ہوں اک طرف
مرے عقب میں چپ کھڑی ہے اک محافظوں کی صف
ہجوم ہٹ نہیں رہا
ہجوم سے کہو ہٹے غبار جانے کب چھٹے
میں اس کے درد سے بھنچے شکستہ ہاتھ کی گرفت سے
ذرا سی نظم کھینچ لوں
محافظوں کا ترجماں دعائے خیر میں مگن
نہیں نہیں وہ پہلے سے رٹا ہوا بیان رٹ نہیں رہا
مشال خان خیر ہو
تماشا گاہ سے تو رائیگاں پلٹ نہیں رہا
ہجوم ہٹ نہیں رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.