Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسن جاناں

اشفاق احمد صائم

حسن جاناں

اشفاق احمد صائم

MORE BYاشفاق احمد صائم

    وہ ایک چہرہ وہ ایک پیکر

    وہ ایک لڑکی وہ ایک جادو

    وہ آنکھ کھولے تو دن بنائے

    وہ مسکرائے تو گل کھلائے

    وہ آنکھ جھپکے بدل دے منظر

    جھکائے نظریں تو رات چھائے

    نظر نظر میں اسی کے صدقے

    ہزار جاں سے اتار ڈالوں

    ہے ایسا چہرہ یقین مانو

    میں جس پہ دنیا ہی وار ڈالوں

    گلاب ہونٹوں سے جب وہ بولے

    ہزار لفظوں کی گرہیں کھولے

    وہ خوشبوؤں کے سفر پہ نکلے

    ہر ایک موسم بھی ساتھ ہو لے

    وہ ایسے بازو جو کھول دے تو

    ہزار منظر سمٹ کے آئیں

    وہ راستوں پر قدم جو رکھے

    قدم سے رستے لپٹتے جائیں

    جو پڑھنے بیٹھو تو آنکھ مہکے

    وہ اچھے لفظوں کی ڈایری ہے

    ہزار غزلوں کا ترجماں ہے

    وہ اس کا چہرہ تو شاعری ہے

    جو دیکھو مدھم سی روشنی میں

    گماں یہ گزرے کہ چاند اترے

    جھکا کے نظریں جو ہنس دے اک پل

    ہزاروں لاکھوں ستارے بکھریں

    اگر جو گہری سی سانس لے گی

    تو یوں لگے گا گلاب مہکے

    اگر وہ پلکیں ذرا سی کھولے

    تو یوں لگے گا کہ خواب مہکے

    اگر وہ چھو لے گی شاخ کوئی

    خزاں کی رت میں بہار اترے

    امڈ کے آئے گی کوئی بارش

    جو ہو کے اس پر نثار اترے

    وہ بادلوں کا ستارہ جیسے

    وہ خوشبوؤں کا اشارہ جیسے

    کبھی روانی ہے پانیوں سی

    کبھی لگے ہے کنارہ جیسے

    وہ دھوپ جیسے ہو سردیوں کی

    نظر میں کھلتا نظارہ جیسے

    وہ اوس جیسے ہو پتیوں پر

    دہکتا کوئی شرارہ جیسے

    وہ پنچھیوں کی صدا ہے کوئی

    وہ دلبروں کی ادا ہے کوئی

    وہ اک تبسم ہے چاندنی کا

    فلک پہ جیسے گھٹا ہے کوئی

    ہزار جانب سے اس کی آنکھیں

    محبتوں کے دیے جلائیں

    وہ جوں ہی بازو پہ سر ٹکائے

    تو خواب نیندوں میں گھل کے آئیں

    وہ راستوں کا یقین کوئی

    وہ منزلوں کا نشان کوئی

    وہ جیسے روحوں میں تازگی ہو

    وہ جیسے جسموں میں جان کوئی

    بنا کے آنکھوں کو میکدہ وہ

    نظر کو چاہے تو جام کر لے

    اٹھا کے پلکیں جو دیکھ لے تو

    وہ شاہزادہ غلام کر لے

    ہے دل کی مسند ٹھکانہ اس کا

    وجود میرا گھرانا اس کا

    ہے میری سانسوں کی تشنگی وہ

    ہے دھڑکنوں کو بہانہ اس کا

    وہ اس کی آنکھیں ہوں سیپ جیسے

    مہکتی شب کے ہوں دیپ جیسے

    وہ لب کہ کھلتے گلاب کوئی

    وہ شاعری کی کتاب کوئی

    وہ عاشقی کے نصاب میں گم

    کسی دیوانے کا خواب کوئی

    سحر کی ٹھنڈی ہوا کے جیسی

    وہ نیکیوں کی جزا کے جیسی

    وہ میرے ہونٹوں پہ کھلنے والی

    وہ خوب صورت دعا کے جیسی

    خدایا اس کو کمال دینا

    عروج دینا جمال دینا

    عطائیں اس کا نصیب کرنا

    بلائیں ساری ہی ٹال دینا

    کبھی جو اس کو ستائیں غم تو

    پھر اپنی رحمت کی شال دینا

    پھر اپنی رحمت کی شال دینا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے