حصول کل اور ایک منظر
وہ سال خوردہ چٹانیں
جو آسماں کو چھوتے ہوئے
بگولوں کی زد میں ثابت رہی ہیں
اب ریگ زار میں منتقل ہوئی ہیں
ہوا کے نازک خفیف جھونکے پہ مشتعل ہیں
اڑی جو گرد تا قدم بھی
تو ابر بن کے فلک پہ چھائی
مگر جو سورج نے آنکھ مل کے اسے کریدا
تو خاک ہو کر وہیں گری ہے
ہوا کے رفتار کب رکی ہے
بہاؤ دریا کا مستقل ہے
خفیف خنکی ہے سلب ہے شب میں
زمیں محور پہ گھومتی ہے
ابھی بھی رحم زمین میں
ٹھوس اور سیال دولتوں کی
کمی نہیں ہے
ہر ایک شے ہے
ہر ایک شے ہے
وہ وقت لیکن
وہ وقت پھیلا ہوا تھا
کہساروں آبشاروں
سلگتے صحراؤں
گہرے پھیلے سمندروں میں
اب اونچی عمارتوں
قہوہ خانوں باروں
پھسلتی کاروں چمکتی سڑکوں
گھڑی کے محدود ہندسوں میں
سمٹ گیا ہے
وہ جس کی انگلی سے چاند شق ہو
وہ جس کے زخمی دہن سے
دشمن کی فوج پر
رحمتوں کی ٹھنڈی پھوار برسے
وہ جس کی مٹھی میں
وہ جہاں کی تمام دولت
تمام ثروت سمٹ گئی ہو
وہ اپنے خالی شکم میں پتھر کا بوجھ باندھے
کہاں ہیں اس کے غلام
آخر کہاں ہیں اس کے
وہ نصف باقی بھی مل چکا تھا
یہ نصف حاصل بھی چھن چکا ہے
حصول کل سہل ہی تھا لیکن
وہ ایک منظر
پھسلتی کاروں چمکتی سڑکوں کی ہاؤ ہو میں
وہ ایک منظر
غلام ناقہ نشین ہو اور
نکیل آقا کے ہاتھ میں ہو
کہاں سے آئے
- کتاب : Roshan waraq waraq (Pg. 75)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.