وقت دریا کی مانند بہتا رہے گا سدا
جگمگاتے رہیں گے ستارے
یوں ہی شب کی پوشاک میں
گل کھلاتی رہے گی ہوا
تا ابد آب میں، خاک میں
ایستادہ رہیں گے خیاباں خیاباں
یہ سرو و صنوبر یوں ہی
ساحلوں پر یوں ہی
لنگر انداز ہوں گے جہاز
اور بچے یوں ہی سیپیاں چننے
آتے رہیں گے سدا
یوں ہی میلہ رہے گا
زمانے کے کوچوں میں
بازار میں!
اور انسان زندہ رہے گا سدا
ایک پیکار میں
اک زمانے تلک ہم بھی سب کی طرح
یوں ہی سوچا کیے
یوں ہی سمجھا کیے
اور شب و روز کا بے نشاں قافلہ
پردۂ غیب میں
گمشدہ منزلوں کی طرف
خامشی سے رہا گامزن
زندگی میں اچانک پھر اک روز
اک حادثہ ہو گیا
جس کی شدت سے اک عمر کا
سحر فکر و نظر ٹوٹ بکھرا
تو آخر یہ عقدہ کھلا
وقت دریا ہے لیکن یہ خود
اک سمندر میں جا گرتا ہے
اس سمندر کی جانب ہے
ہستی کا سارا سفر
آنکھ نے آج تک جتنے منظر بھی دیکھے
وہ سب اس کے
اپنے تراشیدہ تھے
اور دل میں دھڑکتا ہوا
تجرید وہم و گماں کے سوا کچھ نہیں
آرزوئے غم آگہی ایسی ارزاں نہیں
زیست کے دوسرے راستوں کی طرح
راہ کار جنوں اتنی آساں نہیں
ہے بلندی کی جانب اگر زندگی کا سفر
پھر تو کچھ اور ہیں منزلیں آدمی کے لیے
جن کے ہر گام پر، زندگی کے لیے
ہے ثبات ابد منتظر
آپ اپنی نفی کے عمل سے
گزرنا پڑے گا اسے
محبس آب و گل سے
نکلنا پڑے گا اسے
- کتاب : Zehn-e-Jadeed (Pg. 182)
- اشاعت : 2000
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.