زندگی تیری اے طائر ہے بہت ہی مسرور
غم سے دنیا کے نہیں ہوتا کبھی تو رنجور
تیری روداد مسرت بھرا افسانہ ہے
جوش پرواز میں تو محو ہے دیوانہ ہے
اڑتا رہتا ہے تو مرضی کے مطابق اپنی
کیف و راحت سے ہے ہر دم تری مملو ہستی
دین و دنیا کے روایات سے بیگانہ ہے
زندگی تیری چھلکتا ہوا پیمانہ ہے
دشت و صحرا میں کبھی اور کبھی گلزاروں میں
برگ و گل پر ہے کبھی تو کبھی کہساروں میں
شام کے وقت چہکنا ترا بھاتا ہے مجھے
تیرا ہر گیت سہانا پسند آتا ہے مجھے
صبح دم جب کبھی میں سوئے چمن جاتا ہوں
جس طرف اٹھتی ہیں نظریں میں تجھے پاتا ہوں
وادی و کوہ میں تو ہے کبھی صحراؤں میں
آشیاں ایک نہیں کوئی ترا دنیا میں
ہے درختوں پہ کبھی دشت کبھی گلشن میں
بھول سے آ بھی کبھی کاش مرے دامن میں
آ کہ نغمے نئے پر لطف سناؤں تجھ کو
آ کہ آغوش میں لوں اور کھلاؤں تجھ کو
ہائے کیوں طائر آزاد تجھے وحشت ہے
میرا ہوتے ہوئے بھی مجھ سے تجھے نفرت ہے
کس قدر ہائے الگ مجھ سے پھرا کرتا ہے
دور بے کار تو کیوں مجھ سے رہا کرتا ہے
وجہ بیگانگی اے کاش بتا دے تو مجھے
سرگزشت دل مسرور سنا دے تو مجھے