اک بار ٹہلتی پھر آئے
اک سیمیں بدن اک توبہ شکن ہے محو خرام اسٹیشن پر
ماہ تاباں ماہ روشن ماہ کامل ماہ انور
اٹھلاتی ہوئی بل کھاتی ہوئی آنچل پکڑے منہ کو موڑے
کچھ سے بھڑتی کچھ سے کٹتی کچھ دل جوڑے کچھ دل توڑے
مدفون ہزاروں کے ارماں ابھرے ہوئے گورے شانوں میں
مجروح پڑے ہوں گے کتنے ان پردیسی انسانوں میں
کالی متوالی آنکھوں میں پنہاں بے رت کی برساتیں
بے باک نظر کی شوخی میں خوابیدہ گناہوں کی راتیں
فطرت کا سنہرا تحفہ ہے یہ حسن و عشق کے عالم میں
یا تصویروں کی ملکہ ہے رومان کے رنگیں البم میں
وہ رفتہ رفتہ اب میری نظروں سے چھپتی جاتی ہے
اب اسٹیشن کے اس جانب رہ گیروں کو بہکاتی ہے
پروا کے اک جھونکے کی طرح گزری دل کی آبادی سے
کلیوں کو بے مہکائے ہوئے چل دی حسرت کی وادی سے
دریا کی اک موج سیمیں ساحل سے ٹکرا کر چل دی
برسات کے دھندلے بادل میں اک برق سی لہرا کر چل دی
ان چلتے پھرتے سایوں سے الفت کی تمنا کون کرے
جو اپنے بس سے باہر ہوں پھر ان کی پروا کون کرے
لیکن ہاں اتنی خواہش ہے اے کاش جو پوری ہو جائے
اللہ کرے وہ دوشیزہ اک بار ٹہلتی پھر آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.