Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اک ستارہ آدرش کا

شفیق فاطمہ شعریٰ

اک ستارہ آدرش کا

شفیق فاطمہ شعریٰ

MORE BYشفیق فاطمہ شعریٰ

    اے تماشا گاہ عالم روئے تو

    ماہ نو

    ہم دیکھتے تجھ کو کس ارمان سے

    دیکھتے ہی دیکھتے تحلیل ہو جانا ترا

    دیکھتے ہم

    پھر بھی تجھ کو ڈھونڈ رہتے اسی

    سونے افق میں اے ہلال

    وقت کے دریا میں ماہی گیر نے

    ڈالا ہے جال

    کس لیے ساحل کا پتھر بن کے

    ماہی گیر

    بیٹھے ہوں یہاں

    تھاہ میں ڈوبے ہوئے وہ مہر و ماہ

    بن چکے ہوں گے غبار رائیگاں

    یا تماشا سینۂ شمشیر سے باہر دم شمشیر کا

    موجوں میں بہتا

    دیکھتے رہتے ہو تم

    بے سبب آنکھوں سے کب

    یوں مع چھلکتی ہے

    نشاط دید کی

    کون ہو تم

    اور گاگر اپنی لے جاتی ہو

    کس آنگن کی اور

    وہ سہانا سا اجالا

    جھومتا ساگر کے پار

    گل بداماں ایک آنگن شام کے تارے کا ہے

    میرا نہیں

    وہ گھنا بن بھی پرانا آشرم ہے

    جھلملاتی اوس کا

    میرا نہیں

    میں تو گونگے خاکداں کی

    ان کہی

    اے اجنبی

    ان کہی سے کہنی سننی تک پہنچنا

    سہل کب ہے

    درمیان حائل ملے گا

    اک خلائے بے کراں

    سوچ لو

    ہے وقت اب بھی

    ورنہ پھر اے

    بانوئے معصوم و زیرک

    رنجشیں کتنی کھڑی ہیں راہ میں

    پھر نہ ساحل تھا

    نہ وہ ساحل کا پتھر

    جو نظر آیا

    وہ تا حد نظر پھیلا ہوا

    اک پر آشوب و پر اسرار

    بحر نا پیدا کنار

    ہم نے انساں کا جنم پایا

    ستارے گا رہے تھے

    کس عمل کے اجرا میں

    پایا ستارو

    تم نے انساں کا جنم

    ہم تو انساں کے جنم میں بھی ستارے ہی رہے

    بے کراں نیلاہٹوں میں

    رو جھمک اٹھتی ہے رہ رہ کر

    انا

    کہکشاں در کہکشاں بکھرے ثوابت

    اور سیاروں کے بیچ

    فاصلے جذب و کشش کے

    ان کی پیمودہ حدیں

    بڑھتے بڑھتے زاری دائم

    بنات النعش کی

    گھٹتے گھٹتے ورطہ دام فنا

    دھوم کیتو بے مہاری میں مگن

    ایک جھالا سا برس کر کھل گیا چنگاریوں کا

    کتنی تہذیبیں شہابی ٹمٹما کر بجھ گئیں

    نگریاں بابل سی مہوش

    شہپر افرشتگاں الجھے ہوئے

    جن کی سریلی تان ہیں

    ان کی غرقابی کہانی ہے

    پرانی بھی نئی بھی

    ان کی اپنی آتما کی تھاہ سے

    امڈے ہوئے طوفان ہیں

    اپنی فطرت کے تجلی زار سے

    ٹوٹ کر گرتے کواکب

    جا سماتے ہیں خدا جانے کہاں

    جا بجا اژدارہن کالے دہانے

    جن کا منہ سب کچھ نگل کر پھر کھلا

    دیر کتنی ہو چکی

    تب کہیں جا کر وہ اک دن یہ سمجھ پائے

    کہ سناٹا

    خود اپنے دل کے اندر کا تھا

    باہر کا نہ تھا

    رستگار از پنجۂ بے دردیٔ لیل و نہار

    بند آنکھوں کے نگر میں

    کیف عالمگیر کا ارماں ملا

    جس سے واویلا نشیبوں کا نہ ٹکرایا کبھی

    وہ اوج بام

    سرسری اس سے گزر جانے میں پنہاں عافیت

    اے رہ نورد

    اے نظر ور اے دل آسا

    روزن ظلمات ہست و بود

    اے پيک جہاں پيما خضر

    کیل سی دہلیز میں پیوست یہ کیسی چمک ہے

    دھول اجرام فلک کی

    گتھیاں موہوم سی رشتوں کی یہ کیسی ہیں

    سلجھانا نہیں زنہار ورنہ

    ہو کا عالم ہے نمودان کی

    سلجھ جانے کے بعد

    سبزۂ نورستہ کے پردے میں سارے اونچ نیچ

    پاٹتے رہنے کے اے آنند

    بہتے پانیوں کی آتما

    کس کے ہیں یہ استخواں

    ملبے میں ڈھلتے استخواں

    خاک افتادہ کی اگلی اور پچھلی

    ہر پرت کے

    بے زباں تعمیر کار

    مہرباں سا اک تبسم

    اور شائستہ اشارا گھر کی جانب

    جیسے گھر کے بام و در پر ہو نوشتہ

    ہر سوال نا شکیبا کا جواب

    پھر ادھر دیکھا تو سب کچھ

    دشت اخفا میں تھا عدیم

    غار کٹیائیں مچانیں

    گھر گھروندے

    سارے آثار و مظاہر

    گونج میں اپنی سمو کر

    لے اڑی بانگ چیل

    وہ سفر بے سنگ میل

    اک ادھورے آسمانی خواب کا

    ان کی آنکھوں میں خمار

    زیب تن گرد و غبار

    جیسے مٹی میں سنی

    دھڑکنیں دھرتی کی

    نر ناری کی تجسیموں میں عالم آشکار

    اور پھر افتاد پر افتاد

    دور افتادگی

    شاہراہیں نا تراشیدہ سبھی خشکی تری کی

    اور کاغذ بھی پتہ کا گم شدہ

    بے خبر نکلے ہوائے دشت کے جھونکے سبھی

    اور سہل انگار طائر بھی نہ دے پائے سراغ

    ہے کہاں عرفات

    وہ اک وادیٔ دور دراز

    راہ میں آنکھیں بچھائے

    پھول نرگس کے ملے

    راہ میں مہکے گلاب اور راہ میں لالے کھلے

    دید کی لیکن انہیں رفتار فرصت بھی تو دے

    منکشف کرتی ہوئی

    بے نام جل پریوں کو

    گہرے پانیوں میں ایک لمحاتی ترنگ

    بے نشان بن باسیوں پر

    ٹہنیوں میں آس کے مامن کسی

    بھولے بھٹکے زمزمہ کی راہ تکتے

    دوار کھولے جاگتے ہیں

    رات کالی برشگالی

    جگنوؤں کی ناگہاں یلغار

    پھر گہرا اندھیرا

    اور جبلت کی اتھاہ

    شکتیوں کا

    بن میں ڈیرا

    من میں ڈیرا

    ساحلوں کی ریت میں سونپے ہوئے

    اک ودیعت کی طرح حشرات آب

    خول اپنے توڑتے ہیں

    اور بے رہبری ہی آہستہ خرام

    اپنے من کی چاندنی میں

    رینگنے لگتے ہیں

    شور آب بھی کہتے ہیں وہ

    اک سمت ہے

    اک سمت ہے سحر کشش بھی

    سب دشائیں ناگہاں

    اک ساتھ بھرتی ہیں ہنکارا

    بھولنے لگتے ہیں جب معصوم زائر

    جل دشا

    کتنے خوں آلود پنجے

    کتنے خنجر گھات میں ہیں

    پھر بھی جاری یاترا

    وہ حضر بے برگ و ساماں

    گھر خس و خاشاک کی رچنا ادھوری

    جس میں فطرت

    جھانکتی رہتی کہ دیکھے

    اپنے آئین تو افق کا جمال

    بزم آرا آئنہ در آئنہ

    زرد پھولوں پر تھرکتی تتلیوں کا

    پیرہن پیلا سنہرا

    گھاس پر لہرائے ٹڈوں کی ہری دھانی قبا

    رنگریزی دہر کے اس دور کی

    گزرا ہے جو

    رفتہ زیاد

    جب نہ تھا انسان کا مذکورہ اشیا میں شمار

    اس طرف پہلے کبھی دیکھا نہ تھا

    اب جو دیکھا ہے تو جیسے

    پھر سرا آغاز کا ہاتھ آ رہا ہے

    یہ وہی انجام ہے

    دھڑکا تھا جس کا

    ہست و بود انسان کی جب دہر میں تھی بے شناخت

    رہین خانہ

    خانماں برباد اے بانگ رحیل

    تو نے دیکھا ہے کبھی

    شفاف اتھلے پانیوں کی تہ میں

    مونگے کے جزیروں کا دیار

    وہ سمے کی نیو تھی گرم و گداز

    مدتوں تعمیر کی دیوار اپنی

    سادہ دل آنگن نے جس پر

    یہ تبسم بھی کسے ملتا ہے

    جس کے سوز سے

    معدن زر گل کا پگھلتا ہی رہا

    سانچوں میں ڈھلتا ہی رہا

    نسلوں کا فولاد گراں

    خانماں برباد اے بانگ رحیل

    زنان مصر

    ایک عبرانی پیمبر زادہ کو

    ہم نے جس گھر کا بھرم رکھنے کی خاطر

    داخل زنداں کیا تھا

    کیسے آخر اس کو بیت عنکبوت

    مان لیں ہم بے دلیل

    وہ حقیقت کی سلوں پر

    قائم اک تعمیر کیسی تھی

    وہ سقف و بام کیسے تھے تجھے معلوم کیا

    محفلیں آراستہ پیراستہ

    جن کا تحمل سحر کار

    خوشبوؤں کے تانے بانے بننے والے

    مجمروں کی دھونیوں سے آج بھی

    مہکے مہکے ہیں تمدن کے دیار

    آج بھی آثار دیتے ہیں گواہی

    نقش کاری کیسی انمٹ تھی وہ

    قسمت کی لکیروں سے جڑی

    ہم نے عبرانی پیمبر زادوں سے

    پتھر ترشوائے کہ بعد از مرگ بھی

    پایۂ اہرام میں پنہاں رہے گھر کی اساس

    لعل و گوہر خزانے

    شہد و گندم سے ظروف ابلے ہوئے

    تخت و تاج و مہر شاہی کے نگہباں

    حربہ ہائے آہن و فولاد

    اور دستے غلامان جواں کے

    کاہنوں کی پھونک

    ہامانوں کی تدبیر سیاست میں زہر ہلاہل

    پاسبانی میں مگن

    سو رہے ہیں ان گنت فرعون

    اے باد صبا آہستہ چل

    بانگ رحیل

    شیون طوق و سلاسل

    کاخ و ایواں سے نکل کر

    کو بہ کو

    یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو

    وہ بساط رقص درباروں سے ہو کر

    پھیلتی دفتر بہ دفتر

    انجمن در انجمن گھر گھر بچھی

    پتی پتی میں اتر آئی تھی کڑواہٹ

    جڑیں تھیں نیم کی

    اے رہین خانہ

    کیا تجھ کو سنائی دی کبھی

    اس دعا کی گونج

    جس کو سن کے وہ تصوير آب

    نیل

    شاہی قصر کی

    ڈوبی ڈوبی سیڑھیوں سے دور

    ٹھاٹھیں مارتا

    دریائے ناپیدا کنار

    مأخذ :
    • کتاب : Silsila-e-makalmat (Pg. 147)
    • Author : Shafique Fatma Shora
    • مطبع : Educational Publishing House (2006)
    • اشاعت : 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے