انتشار
کبھی جمود کبھی صرف انتشار سا ہے
جہاں کو اپنی تباہی کا انتظار سا ہے
منو کی مچھلی نہ کشتئ نوح اور یہ فضا
کہ قطرے قطرے میں طوفان بے قرار سا ہے
میں کس کو اپنے گریباں کا چاک دکھلاؤں
کہ آج دامن یزداں بھی تار تار سا ہے
سجا سنوار کے جس کو ہزار ناز کیے
اسی پہ خالق کونین شرمسار سا ہے
تمام جسم ہے بے دار فکر خوابیدہ
دماغ پچھلے زمانے کی یادگار سا ہے
سب اپنے پاؤں پہ رکھ رکھ کے پاؤں چلتے ہیں
خود اپنے دوش پہ ہر آدمی سوار سا ہے
جسے پکاریے ملتا ہے اک کھنڈر سے جواب
جسے بھی دیکھیے ماضی کا اشتہار سا ہے
ہوئی تو کیسے بیاباں میں آ کے شام ہوئی
کہ جو مزار یہاں ہے مرا مزار سا ہے
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
- کتاب : azadi ke bad urdu nazm (Pg. 287)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.