انتظار
بزم خاموش میں چھڑنے کو ہے پھر ساز حیات
منتظر بیٹھے ہیں سب گوش بر آواز حیات
قابل دید ہے طوفان سے پہلے کا سکوں
جوش و ہنگامہ و ہیجان سے پہلے کا سکوں
یاس و امید میں تفریق ہے مشکل اس دم
ہمہ تن ساکت و مبہوت ہے محفل اس دم
ٹکٹکی باندھے بیک طور ہزاروں آنکھیں
اک کف پیر مغاں اور ہزاروں آنکھیں
کوئی آگاہ نہیں دور کدھر آئے گا
کس کے ہاتھوں میں خط جام نظر آئے گا
ہر گھڑی سینوں میں ہے کشمکش شک و یقیں
مجلس عیش میں بھی صورت آرام نہیں
کس نے آغاز کیا زمزمۂ بزم طرب
لب جاں بخش کی تھوڑی سی بھی جنبش ہے غضب
مژدۂ امن و اماں صلح کا پیغام ہے کیا
جنگ آزادیٔ انساں کا سرانجام ہے کیا
ساز الفت کی نوا سوز محبت تو نہیں
نغمۂ عدل و مساوات و اخوت تو نہیں
مطلب زیست کی تفہیم میں کیا دیر ہے اب
نعمت عام کی تقسیم میں کیا دیر ہے اب
طالب ساغر نو بزم کہن ہے ساقی
انتظار آخر شب صبر شکن ہے ساقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.