زندگی کے غم و آلام سے ٹکرانے دے
درد بن کر مجھے احساس پہ چھا جانے دے
دو قدم اور ہیں منزل پہ پہنچ جانے دے
پھر تری بزم میں آؤں گا غزل خوانی کو
چند لمحے مری خاطر سے سہی اور ٹھہر
درد کے سایہ میں پلتی ہے تمنائے حیات
خون ملتا ہے تو لو دیتی ہے کچھ شمع حیات
اک تماشا ہے سر دار بہ عنوان حیات
زندگی کو نئے عنواں سے سجا لینے دے
چند لمحے مری خاطر ہی سہی اور ٹھہر
اب بھی افکار پہ پہرہ ہے سیہ کاروں کا
سوچ سکتے ہیں مگر جرأت تقریر نہیں
ہجر کی آگ میں جلتا ہے تمنا کا شباب
میری تقدیر ہے جلنا تری تقدیر نہیں
چند لمحے مری خاطر سے سہی اور ٹھہر
اب بھی کانٹے ہیں محبت کی گزر گاہوں پر
اب بھی ہر راہ پہ رہزن ہیں بہ شکل رہبر
اب بھی شاعر کے مقدر میں ہے بے نور سحر
اب بھی موقع ہے ذرا سوچ مرے ساتھ نہ آ
چند لمحے مری خاطر سے سہی اور ٹھہر
ساتھ چلتی ہے تو کانٹوں سے گزرنا ہوگا
کاسۂ دل غم و آلام سے بھرنا ہوگا
سایۂ دار و رسن میں بھی سنورنا ہوگا
چند لمحوں کے لئے خود کو پریشان نہ کر
شب کو پہنچا کے سحر تک میں چلا آؤں گا
چند لمحے مری خاطر سے سہی اور ٹھہر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.