انتظار ہی انتظار
ایک چاندنی رات تھی
حسن کی بارات تھی
تھا دھرتی پر بھی ایک چاند چمکتا ہوا
سامنے اس کے ایک حسین دل ربا
خوب صورت نقش و نگار
آنکھوں میں خمار ہی خمار
پلکیں جھکتیں کبھی اٹھتیں
لب کشا ہوتے
پھر خموشی
رات کی دل کشی سمیٹ کر
اس چاند کی آغوش میں
ضم ہونا چاہتی تھی وہ
وہ چاند بھی اس حسن کے سحر میں ڈوبا ہوا
دیکھتا رہا دیکھتا رہا
کیسے دل سے دل ملائے
کہ آغوش میں وہ سمٹ جائے
دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں
قرار اک دوجے کا کھوتی گئیں
اس چاند نے پری پیکر کی جانب
ہاتھ بڑھا دئے
اپنی آغوش کو وا کیا اور کہا
آؤ سمٹ جاؤ میری بانہوں میں
بنا تمہارے میں رہ نہیں سکتا جی نہیں سکتا
تم کہ میرا جیون ہو
وہ پری پیکر حسن مجسم آگے بڑھی
اس چاند کی دھڑکنوں میں مل جانے کے لئے
زندگی کے گیت گانے کے لئے مسکرانے کے لئے
اچانک غیظ و غضب کی آئی آواز
کہاں ہے چاندنی کہاں ہے چاندنی
وہ حسن مجسم
گھر والوں کی غیظ و غضب کی سن کر آواز
تھرا گئی کانپ گئی خوف سے
برق رفتار سے صحن سے ہوتی ہوئی
جا کر اپنی خواب گاہ میں
مخملیں بستر پر دراز ہو گئی
پھر راتوں پہروں وہ جاگتی رہی جاگتی رہی
نیند چین آرام کھو گیا سب
رہ گیا تو بس ایک انتظار
انتظار ہی انتظار
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.