میں تری کھوج میں
صحرا صحرا بھٹکتی رہی مدتوں
ننگے پاؤں میں پھوٹے ہوئے آبلے جب سسکنے لگے
ہونٹ پانی کی خاطر بلکنے لگے
خشک ہونٹوں پہ اپنی زباں پھیرتے
آسماں کی طرف آنکھ دوڑائی تو
آنکھ سے چند آنسو ٹپک کر میرے
کان کو ڈھانکتے میرے بالوں کی سوکھی لٹوں کو بھگوتے ہوئے کان میں جا گرے
چیختے چیختے جب گلا پھاڑتے
میری آواز بھی بیٹھ جانے لگی
تجھ کو آواز دے کر پکارا بہت
میری اپنی صدا کچھ پہاڑوں سے ٹکرا کے اپنے ہی کانوں میں لوٹ آئی تو
پھر مجھے یوں لگا
میری ہر اک صدا اب ترے کان کو چیرنے سے تو قاصر رہے گی سدا
مجھ کو تو نہ ملا
گرد آلود بکھرے ہوئے بال آنچل سے ڈھانپے ہوئے
میں خدا کے جو سجدے میں پھر گر پڑی
چیختی ہی رہی
چیختی ہی رہی
چیختی ہی رہی
مجھ کو تو تو ملا ہی نہیں ہاں مگر
پھر کچھ ایسا ہوا
میرے اشکوں نے صحرا کی تپتی ہوئی ریت کی پیاس کو جب بجھایا تو پھر اس سمے
ایک جھونکا سا چنچل سی خوشبو لیے میرے اطراف میں کھل گیا
تو ملا کہ نہیں پر خدا مل گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.