استعارے ڈھونڈتا رہتا ہوں
استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں
دھوپ میں اڑتی سنہری دھول کے
بھید ست رنگی طلسمی پھول کے
جانے کس کے پاؤں کی مدھم دھمک
دھیان کی دہلیز پر سنتا ہوں میں
استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں
جانے کس رنگت کو چھو کر
شہر میں آتی ہے شام
بھول جاتا ہوں گھروں کے راستے لوگوں کے نام
ایک ان دیکھے نگر کا راستہ
اس سفر میں پوچھتا رہتا ہوں میں
استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں
غیب کے شہروں سے آتی ہے ہوا
پھول سا اڑتا ہے تیرے جسم کا
وصل کے در کھولتی ہیں انگلیاں
خون میں گھلتا ہے تیرا ذائقہ
آتے جاتے موسموں کی اوٹ میں
تیرا چہرہ دیکھتا رہتا ہوں میں
استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں
- کتاب : meyaar (Pg. 60)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.