استقبال
ابل رہا ہے ترنم چھلک رہی ہے شراب
پیو پیو کہ نئے سال کی کرن پھوٹی
مگر یہ کون ہے ہر بار مجھ سے کہتا ہے
ترا خمار بھی جھوٹا شراب بھی جھوٹی
وہ دیکھو بنت کلیسا کی نیلگوں آنکھیں
جھکی جھکی سی ہیں پلکیں مگر سبو دے گی
یہ چیخ ہاں یہ تمدن کی ایک ہچکی تھی
اسی دیار میں انسانیت لہو دے گی
مگر لہو تو ٹپکتا ہے سرخ ڈوروں سے
اسی لہو میں شرابور ہیں لب و رخسار
مگر یہ کس کا لہو ہے جو مجھ سے کہتا ہے
مرے ابال سے بڑھتا ہے زندگی کا وقار
سکون صبر قناعت نجات تقدیریں
یہ بورژائی تمدن کی اصطلاحیں ہیں
قدم اٹھے ہیں تو منزل پہ جا کے دم لیں گے
مری نگاہ میں دنیا کی شاہراہیں ہیں
میں جانتا ہوں یہ تہذیب جی نہیں سکتی
یہیں حیات کا زخمی سکوت ٹوٹے گا
کہو کہو مرے جاں باز ساتھیوں سے کہو
اسی افق پہ نیا آفتاب ابھرے گا
- کتاب : Aina Khane (Pg. 109)
- Author : Akhtar payami
- مطبع : Zain Publications (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.