اتحاد
یہ دیش کہ ہندو اور مسلم تہذیبوں کا شیرازہ ہے
صدیوں کی پرانی بات ہے یہ پر آج بھی کتنی تازہ ہے
تاریخ ہے اس کی ایک عمل تحلیلوں کا ترکیبوں کا
سمبندھ وہ دو آدرشوں کا سنجوگ وہ دو تہذیبوں کا
وہ ایک تڑپ وہ ایک لگن کچھ کھونے کی کچھ پانے کی
وہ ایک طلب دو روحوں کے اک قالب میں ڈھل جانے کی
دو شمعوں کی لو پیچاں جیسے اک شعلۂ نو بن جانے کی
دو دھاریں جیسے مدرا کی بھرتی ہوئی کسی پیمانے کی
یوں ایک تجلی جاگ اٹھی نظروں میں حقیقت والوں کی
جس طرح حدیں مل جاتی ہوں دو سمت سے دو اجیالوں کی
آوازۂ حق جب لہرا کر بھگتی کا ترانہ بنتا ہے
یہ ربط بہم یہ جذب دروں خود ایک زمانہ بنتا ہے
چشتی کا قطب کا ہر نعرہ یک رنگی میں ڈھل جاتا ہے
ہر دل پہ کبیر اور تلسی کے دوہوں کا فسوں چل جاتا ہے
نانک کا کبت بن جاتی ہے میرا کا بھجن بن جاتا ہے
دل دل سے جو ہم آہنگ ہوئے اطوار ملے انداز ملے
اک اور زباں تعمیر ہوئی الفاظ سے جب الفاظ ملے
یہ فکر و بیاں کی رعنائی دنیائے ادب کی جان بنی
یہ میرؔ کا فن چکبستؔ کی لے غالبؔ کا امر دیوان بنی
تہذیب کی اس یکجہتی کو اردو کی شہادت کافی ہے
کچھ اور نشاں بھی ملتے ہیں تھوڑی سی بصیرت کافی ہے
تعمیر کے پردے میں بھی کئی بے لوث فسوں مل جاتے ہیں
رنپور کے مندر میں ہم کو مسجد کے ستوں مل جاتے ہیں
وحدت کی اسی چنگاری سے دل موم ہوا ہے پتھر کا
اجمیر کی جامع مسجد میں خود عکس ہے اجنبی مندر کا
پھر اور ذرا یہ فن بڑھ کر مانند غزل بن جاتا ہے
مرمر کی رو پہلی چاندی سے اک تاج محل بن جاتا ہے
یہ نقش بہم تہذیبوں کا موجود ہے سو تصویروں میں
منصورؔ منوہرؔ دولتؔ اور ہاشمؔ کی سبک تحریروں میں
دل ساتھ دھڑکتے آئے ہیں خود ساز پتا دے دیتے ہیں
ترتیب سروں کی کیسے ہوئی خود راگ صدا دے دیتے ہیں
اس وقت بھی جب اک مطرب کے ہونٹوں پہ خیال آ جاتا ہے
سنگت کی دیوی کے رخ پر اک بار جمال آ جاتا ہے
ٹھمری کی رسیلی تانوں سے نغموں کی گھٹائیں آتی ہیں
چھڑتا ہے ستار اب بھی جو کہیں خسرو کی صدائیں آئی ہیں
سلمے کی دمک کچھ کہتی ہے رقاص کے رنگیں جوڑے میں
اک گونج نئے انداز کی ہے کتھک کے دھمکتے توڑے میں
مرلی کی سہانی سنگت کو طاؤس و رباب آ جاتے ہیں
چمپا کے مہکتے پہلو میں خوش رنگ گلاب آ جاتے ہیں
ذہنوں کی تہوں میں آج بھی ہے لہرا وہ حسیں شہنائی کا
اکبر کے جواں کاندھے پہ سجا جب ڈولا جودھابائی کا
ہر دین سے بڑھ کر وہ رشتہ الفت کی جنوں سامانی کا
چہرے سے سرکتا وہ گھونگھٹ تاروں سے حسیں مستانی کا
آپس کی یہ بڑھتی یک جہتی اک موڑ پہ جب رک جاتی ہے
انسان کے آگے انساں کی اک بار نظر جھک جاتی ہے
اے ارض وطن مغموم نہ ہو پھر پیار کے چشمے پھوٹیں گے
یہ نسل و نسب کے پیمانے یہ ذات کے درپن ٹوٹیں گے
ذہنوں کی گھٹن مٹ جائے گی انساں میں تفکر جاگے گا
کل ایک مکمل وحدت کا بے باک تصور جاگے گا
تعمیر نئی وحدت ہوگی مانوتا کی بنیادوں پر
اے ارض وطن وشواس تو کر اک بار ہمارے وعدوں پر
اس وحدت اس یک جہتی کی تعمیر کا دن ہم لائیں گے
صدیوں کے سنہرے خوابوں کی تعبیر کا دن ہم لائیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.