Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اتحاد

MORE BYجاں نثار اختر

    یہ دیش کہ ہندو اور مسلم تہذیبوں کا شیرازہ ہے

    صدیوں کی پرانی بات ہے یہ پر آج بھی کتنی تازہ ہے

    تاریخ ہے اس کی ایک عمل تحلیلوں کا ترکیبوں کا

    سمبندھ وہ دو آدرشوں کا سنجوگ وہ دو تہذیبوں کا

    وہ ایک تڑپ وہ ایک لگن کچھ کھونے کی کچھ پانے کی

    وہ ایک طلب دو روحوں کے اک قالب میں ڈھل جانے کی

    دو شمعوں کی لو پیچاں جیسے اک شعلۂ نو بن جانے کی

    دو دھاریں جیسے مدرا کی بھرتی ہوئی کسی پیمانے کی

    یوں ایک تجلی جاگ اٹھی نظروں میں حقیقت والوں کی

    جس طرح حدیں مل جاتی ہوں دو سمت سے دو اجیالوں کی

    آوازۂ حق جب لہرا کر بھگتی کا ترانہ بنتا ہے

    یہ ربط بہم یہ جذب دروں خود ایک زمانہ بنتا ہے

    چشتی کا قطب کا ہر نعرہ یک رنگی میں ڈھل جاتا ہے

    ہر دل پہ کبیر اور تلسی کے دوہوں کا فسوں چل جاتا ہے

    نانک کا کبت بن جاتی ہے میرا کا بھجن بن جاتا ہے

    دل دل سے جو ہم آہنگ ہوئے اطوار ملے انداز ملے

    اک اور زباں تعمیر ہوئی الفاظ سے جب الفاظ ملے

    یہ فکر و بیاں کی رعنائی دنیائے ادب کی جان بنی

    یہ میرؔ کا فن چکبستؔ کی لے غالبؔ کا امر دیوان بنی

    تہذیب کی اس یکجہتی کو اردو کی شہادت کافی ہے

    کچھ اور نشاں بھی ملتے ہیں تھوڑی سی بصیرت کافی ہے

    تعمیر کے پردے میں بھی کئی بے لوث فسوں مل جاتے ہیں

    رنپور کے مندر میں ہم کو مسجد کے ستوں مل جاتے ہیں

    وحدت کی اسی چنگاری سے دل موم ہوا ہے پتھر کا

    اجمیر کی جامع مسجد میں خود عکس ہے اجنبی مندر کا

    پھر اور ذرا یہ فن بڑھ کر مانند غزل بن جاتا ہے

    مرمر کی رو پہلی چاندی سے اک تاج محل بن جاتا ہے

    یہ نقش بہم تہذیبوں کا موجود ہے سو تصویروں میں

    منصورؔ منوہرؔ دولتؔ اور ہاشمؔ کی سبک تحریروں میں

    دل ساتھ دھڑکتے آئے ہیں خود ساز پتا دے دیتے ہیں

    ترتیب سروں کی کیسے ہوئی خود راگ صدا دے دیتے ہیں

    اس وقت بھی جب اک مطرب کے ہونٹوں پہ خیال آ جاتا ہے

    سنگت کی دیوی کے رخ پر اک بار جمال آ جاتا ہے

    ٹھمری کی رسیلی تانوں سے نغموں کی گھٹائیں آتی ہیں

    چھڑتا ہے ستار اب بھی جو کہیں خسرو کی صدائیں آئی ہیں

    سلمے کی دمک کچھ کہتی ہے رقاص کے رنگیں جوڑے میں

    اک گونج نئے انداز کی ہے کتھک کے دھمکتے توڑے میں

    مرلی کی سہانی سنگت کو طاؤس و رباب آ جاتے ہیں

    چمپا کے مہکتے پہلو میں خوش رنگ گلاب آ جاتے ہیں

    ذہنوں کی تہوں میں آج بھی ہے لہرا وہ حسیں شہنائی کا

    اکبر کے جواں کاندھے پہ سجا جب ڈولا جودھابائی کا

    ہر دین سے بڑھ کر وہ رشتہ الفت کی جنوں سامانی کا

    چہرے سے سرکتا وہ گھونگھٹ تاروں سے حسیں مستانی کا

    آپس کی یہ بڑھتی یک جہتی اک موڑ پہ جب رک جاتی ہے

    انسان کے آگے انساں کی اک بار نظر جھک جاتی ہے

    اے ارض وطن مغموم نہ ہو پھر پیار کے چشمے پھوٹیں گے

    یہ نسل و نسب کے پیمانے یہ ذات کے درپن ٹوٹیں گے

    ذہنوں کی گھٹن مٹ جائے گی انساں میں تفکر جاگے گا

    کل ایک مکمل وحدت کا بے باک تصور جاگے گا

    تعمیر نئی وحدت ہوگی مانوتا کی بنیادوں پر

    اے ارض وطن وشواس تو کر اک بار ہمارے وعدوں پر

    اس وحدت اس یک جہتی کی تعمیر کا دن ہم لائیں گے

    صدیوں کے سنہرے خوابوں کی تعبیر کا دن ہم لائیں گے

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے