اظہار
ہم نے سوچا اب شکستہ گھر مقفل نہیں ہو سکتے
کواڑوں کے بغیر
اچھے کواڑ اچھی عمارت کے بغیر
ہم نے کچھ کالی تجارت سے کمائی کی
ادھر کچھ جنگلوں کے چور اپنے یار تھے
لکڑی خریدی اور کواڑوں اور کڑیوں میں گھڑی
نقشے بنائے اور دیواریں چنیں ہم نے چھتیں ڈالیں
نئی تعمیر کو ہر رنگ کی ہر آرٹ کی دھج دی
پھر اپنی سوچ اور احساس کی رعنا نظر افروز
تصویروں سے کمروں کو سجا کر آئنے کے سامنے آئے
اور اک فن کار کی نخوت سے بالوں کو بکھیرا
اور چہرے کو بناوٹ دی
یہی چہرہ ہمارے ساتھ سگریٹ پھونکتا
سڑکوں پہ پھرتا ہوٹلوں میں چائے پیتا تھا
زمانے بھر کی گپیں ہانکتا تھا
لیکن اس سچ کی صدا اس میں مقفل تھی جو اس کے عہد کا سچ تھا
وہ گونگا تھا
کواڑوں کی طرح اپنے مکاں میں اپنی تصویر کی صورت ہم مقفل تھے
اور اب جب شہر میں بڑھتے دھماکوں نے
مکاں لرزا دیا ہے توڑ ڈالے ہیں کواڑ اور مسخ کر ڈالی ہیں تصویریں
ہمیں یہ دکھ ہے ہم خود میں مقفل کیوں ہوئے تھے
جبر کی بڑھتی ہوئی میعاد میں
صبر کی شفقت بھری بوڑھی دعائیں کیوں نہیں
ہم نے خود پر کیوں خلا کے فاصلے لمبے کئے
سچ کی خاموشی کے مجرم کیوں بنے
چپ گوارہ کیوں ہوئی
بات گونگے کا اشارہ کیوں ہوئی
ہم اگر لب کھولتے
کچھ دوسرے بھی بولتے
کچھ دوسرے بھی بولتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.