اضطراب
کتنی ہی سوئی دوپہروں میں
کتنی ہی جلتی راتوں میں
ہر خواب ادھورا
مڑ مڑ کر
جانے کیا ڈھونڈا کرتا ہے
کچھ بھیگے پل
بوجھل قدموں کی چاپ لئے
حیران پریشاں
پوچھتے ہیں
یہ موڑ کہاں تک جاتا ہے
کچھ بے ہنگم سی تصویریں
دھندلی دھندلی
بے ڈول سے کچھ لمبے سائے
ویران ہمکتی تنہائی
امید کے روشن دانوں سے
کیا منظر دیکھا کرتی ہے
سناٹے کے اس شور میں بھی
موہوم سی ایک امید کبھی
کروٹ کروٹ خود سے پوچھے
آواز ابھی جو گونجی تھی
وہ بانگ جرس تھی
یا کوئی
پازیب کہیں ٹکرائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.