Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جہاں زاد

عشرت آفریں

جہاں زاد

عشرت آفریں

MORE BYعشرت آفریں

    اے حسن کوزہ گر

    تو نے جانا کہ میں

    جسم و جاں کے تعلق کی روشن گزر گاہ سے

    اک جہاں کا سفر جھیل کر اس

    رفاقت کی دہلیز تک آئی ہوں

    اے حسن کاش تو جان سکتا

    کہ اس صحن خانہ سے دہلیز تک کے سفر میں

    جہاں زاد کو کیوں زمانے لگے ہیں

    حسن اس سفر میں جہاں زاد کو

    ایک اک گام پر وقت کے تازیانے لگے ہیں

    حسن وقت مالک بھی ہے دیوتا بھی

    محافظ بھی ہے اور خواجہ سرا بھی

    یہ دیکھا ہے میں نے

    کہ جب بھی دریچوں میں تازہ شگوفہ کھلا ہے

    ہوا سے وہ ہنس کر ذرا سا گلے بھی ملا ہے

    تو خواجہ سرا کی نظر سے کہاں بچ سکا ہے

    مگر دیکھ مجھ کو کہ میں نے یہاں ٹھیک نو سال تک

    پھول کاڑھے ہیں خوابوں کے بستر پہ لیکن

    ابھی تک کوئی ان پہ سویا نہیں

    پھول تازہ شگفتہ اور آزردہ ہیں

    میں نے نو سال صورت گری کی ہے تیرے ہر اک لمس کی

    رات بھر میں نے آنکھیں بھگوئی ہیں کوزوں میں اور صبح دم

    حلق کو تر کیا آنسوؤں سے بہت

    یہ مسافت یہ نو سال کی بے محابا مسافت

    ترے در کے آگے مجھے کھینچ لائی

    مگر تو یہاں چاک پر اپنی دھن میں مگن ہے نگاہیں اٹھا

    دیکھ تو میں جہاں زاد تیری ترے سامنے ہوں

    مگر تو نے سچ ہی کہا تھا

    زمانہ جہاں زاد وہ چاک ہے

    جس پہ مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں کی مانند

    بنتے بگڑتے ہیں انساں

    سو اب ہم

    جو صدیوں کی لمبی مسافت سے لوٹے ہیں

    تو اپنے رنجور کوزوں میں جھوجھا ہوا ہے

    یہ تیرا قصور اور نہ میری خطا ہے

    کوئی کوزہ گر تو ہمارا بھی ہوگا

    سو یہ اس کی حکمت

    کہ اس نے ہمیں چاک پر ڈھالتے وقت

    لمحوں کا پھیر اس نزاکت سے رکھا

    کہ ہم اپنی اپنی جگہ صرف ششدر کھڑے تھے

    کئی دست چابک کے بے جان پتلے

    مرے اور ترے درمیاں سج گئے تھے

    سو یہ اس کی حکمت

    مگر وقت اس درجہ سفاک کیوں ہے

    یہ مشاطہ زندگی اتنی چالاک کیوں ہے

    مرے اور ترے درمیاں نو برس جس نے لا کر بچھائے

    یہ نو سال کس طور میں نے بتائے

    کہ ساحل سے کشتی تک آتے ہوئے

    جیسے تختے کے ہم راہ دل ڈگمگائے

    وہی نو برس جو مرے اور ترے درمیاں

    وقت کی کرچیاں ہیں

    زمانہ بھی کیسی عجب کہکشاں ہے

    یہ دنیائے سیارگاں ہے کہ جس میں ہزاروں کواکب

    مسلسل کسی چاک پر گھومتے ہیں

    یہ اجسام کے گرد اجسام کا رقص ہی زندگی ہے مری جاں

    مری جان تو چاک کے ساتھ مٹی کے رشتے کو پہچانتا تھا

    حسن تو نے مٹی کے بے جان پتلوں سے

    تخلیق کے جاں گسل مرحلوں میں

    سدا گفتگو سو طرح گفتگو کی

    ذہانت کے پتلے محبت کے خالق فقط یہ بتا دے

    کہ تیرے عناصر کے اجزائے ترکیب میں واہمہ کیسے آیا

    حسن تو وہاں جھونپڑے میں

    اکیلا گلے مل کے رویا تھا کس سے

    لبیب اور تو اور میں اور حقیقت میں کوئی نہیں تھا

    طرح واہمہ میرے لب میرے گیسو سے لپٹا رہا تھا

    لبیب ایک سایا جسے تو نے روگ اپنی جاں کا بنایا

    یہ سایا کہیں گر حقیقت بھی ہوتا

    تو آخر کو تو اس حقیقت سے کیوں بے خبر تھا

    کہ ہر جسم کے ساتھ اک آفتاب اور مہتاب لازم

    یہ تثلیث قائم ہے قائم رہے گی

    حسن میں ترے سامنے آئینہ تھی

    ترے ہجر اور وصل کا آئینہ

    انہماک و تعلق کی مٹی سے گوندھے ہوئے جسم کو

    تیری آنکھوں کی حدت نے چمکایا تھا

    تیری خلوت کی حیرت نے وہ رنگ و روغن کئے تھے

    کہ آئینے ششدر کھڑے رہ گئے تھے

    مگر تیری خلوت کی حیرت میں وحشت کا جو شائبہ تھا

    نگاہوں سے میری کہاں چھپ سکا تھا

    مرے اور ترے درمیاں وصل کی ہر گھڑی میں

    نہ جانے کہاں سے وہی سوختہ بخت تیری

    کہ جو جانفشانی کے شالوں سے دہکے ہوئے

    زندگی کے ابد تاب تنور پر

    انگلیاں تیرے بچوں کی تھامے کھڑی

    بھوک سے برسر جنگ تھی

    جس کے نزدیک یہ

    تیرے کوزے ترے فن تری آگ سب

    میری آنکھیں مرے پھول اور خواب سب

    زندگی کے ابد تاب تنور کے راکھ تھے

    تیری اس سوختہ بخت کو کیا خبر

    جب زمیں اپنے محور کی تجدید میں

    حرف لا سے گزر جائے گی

    تو ہزاروں برس بعد بھی

    یہ ازل کے گھروندوں کی مٹی میں مدفون

    پھول اور بوٹے یہ کوزے

    اور ان میں انہی قاف آنکھوں سے چھلکے ہوئے

    سرخ پانی کی تلچھٹ

    کسی کوزہ گر کے جواں لمس سے جی اٹھے تو

    جہاں زاد اس کے لئے پھر جنم لے گی

    اور نو برس رقص کرتے گزر جائیں گے

    تیری اس سوختہ بخت کو کیا خبر

    وہ رات وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض

    جس کو میں نے جسم و جان کی خوشبوئیں کشید کر کے

    قطرہ قطرہ نو برس میں آنسوؤں سے پر کیا

    وہ ایک رات صرف ایک رات میں تمام خشک ہو گیا

    ہم اپنے وصل کی تمازتوں میں ایسے جل بجھے

    کہ راکھ تک نہیں بچی

    یہ ایک جاں کی تشنگی

    مجھے تجھے بہ یک زماں بھلا کہاں کہاں نہ کھینچتی پھری

    مگر یہ تو نے کیا کہا

    کہ تیرے جیسی عورتیں جہاں زاد

    ایسی الجھنیں ہیں جن کو آج تک کوئی نہیں سلجھ سکا

    کہ عورتوں کی ذات ہے وہ طنز اپنے آپ پر

    جواب جن کا ہم نہیں

    تو پھر یہ جام و مینا و سبو و حوض و رود نیل

    اس زمیں کی گود میں

    ازل کی حرف گیر تابناکی کے لئے

    کہیں بھی کچھ بہم نہیں

    اے حسن چاک پر سے ذرا اپنی نظریں ہٹا

    تو مرے نو برس تک بنائے گئے پھول تو دیکھ لے

    پھول تازہ شگفتہ اور آزردہ ہیں

    یوں نہ ہو کہ انہیں

    بھوک اور مفلسی کے ستائے ہوئے

    میرے بچے بھی نیلام کر آئیں جا کر کہیں

    تیرے کوزوں کی مانند بغداد میں

    اے حسن

    دامن وقت پر جتنے پھول اور بوٹے سجے ہیں

    جہاں زاد کی زخم پوروں نے رنگ ان میں

    اپنے جنوں کے بھرے ہیں

    یہ تاوان ہیں چمپئی انگلیوں کا

    ترے جام و مینا پہ

    جس خال و خد کی نزاکت کی پرچھائیاں تھیں

    تجھے کیا خبر یہ کن آنکھوں کی بینائیاں تھیں

    حسن یہ محبت

    کہ جس کو تری سوختہ بخت گردانتی ہے

    امیروں کی بازی

    تو میرے تئیں یہ امیروں کی بازی کہاں

    صرف بازی گری تھی

    محبت ہمیشہ سے مفلس کا سرمایۂ جاں رہی ہے

    یہی تو وہ پونجی ہے

    جس تک امیروں کے ہاتھ اب بھی پہنچے نہیں ہیں

    تجھے یہ گماں تھا

    کہ عورت

    محبت کی بازی میں بے جان پتے کی صورت

    کسی دست چابک کی مرہون منت

    وہ اس کھیل میں ایک مہرے کی صورت

    کہ جب جس نے چاہا

    اسے ایک گھر سے اٹھا کر

    کسی دوسرے گھر کا مالک بنایا

    کہ عورت فقط ایک پتھر کی مورت

    یہ تصویر حیرت یوں ہی چپ کھڑی ہے

    یوں ہی چپ رہے گی

    مگر یوں نہیں ہے

    حسن تو نے دیکھا کہ میں

    قید اوہام و بند روایات میں

    بوڑھے عطار یوسف کی دکان پر

    اپنی آنکھیں تجھے نذر کرتی رہی

    بوڑھا عطار وہ کیمیا گر کہ جس نے

    زمانوں کے جنگل سے

    چہروں کے پھول اور بوٹے چنے

    وہ مجھے اور تجھے جانتا تھا مگر

    میں نے بازار میں

    تجھ سے آنکھوں کا اور دل کا سودا کیا

    اے حسن میرے ایک اک دریچے پہ

    کہنہ روایات و ظالم عقائد کا جنگل اگا تھا

    حسن

    کاش تو میری آنکھوں سے میرے دریچے کو تکتا

    تو یہ جان سکتا

    جہاں تو کھڑا تھا وہاں ایک اک درز سے

    میری آنکھیں مرا جسم

    چھن چھن کے کٹ کٹ کے گرتا رہا تھا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے