جہنمی
میں اکثر سوچتا ہوں
ذہن کی تاریک گلیوں میں
دہکتا اور پگھلتا
دھیرے دھیرے آگے بڑھتا
غم کا یہ لاوا
اگر چاہوں
تو رک سکتا ہے
میرے دل کی کچی کھال پر رکھا یہ انگارا
اگر چاہوں
تو بجھ سکتا ہے
لیکن
پھر خیال آتا ہے
میرے سارے رشتوں میں
پڑی ساری دراڑوں سے
گزر کے آنے والی برف سے ٹھنڈی ہوا
اور میری ہر پہچان پر سردی کا یہ موسم
کہیں ایسا نہ ہو
اس جسم کو اس روح کو ہی منجمد کر دے
میں اکثر سوچتا ہوں
ذہن کی تاریک گلیوں میں
دہکتا اور پگھلتا
دھیرے دھیرے آگے بڑھتا
غم کا یہ لاوا
اذیت ہے
مگر پھر بھی غنیمت ہے
اسی سے روح میں گرمی
بدن میں یہ حرارت ہے
یہ غم میری ضرورت ہے
میں اپنے غم سے زندہ ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.