جنگل کٹتے جاتے ہیں
شیر بہت گھبراتے ہیں
پونچھ اٹھائے پھرتے ہیں
ہر آہٹ پہ ڈرتے ہیں
کیا جانے کب پیڑ کٹے
کیا جانے کب شاخ گرے
چڑیاں اڑ کر چلی گئیں
بچے چھوٹے یہیں کہیں
ہاتھی کو یہ فکر ہوئی
چرا نہ لے تالاب کوئی
تب وہ کہاں نہائے گا
کیسے پیاس بجھائے گا
بھالو بھی خاموش ہوا
گیدڑ کو افسوس ہوا
جب دیکھو تب آدم زاد
جنگل کاٹ کے ہو گیا شاد
ہر دم ہاتھ میں آری ہے
یہ کیسی بیماری ہے
پیڑ اگر کٹ جائیں گے
چھاؤں کہاں سے پائیں گے
گھر گھر بادل آئیں گے
بن برسے اڑ جائیں گے
مٹی ڈھیلی ہوئی اگر
ندی چلے گی ادھر ادھر
گھر کے گھر ڈھ جائیں گے
ہم کیسے رہ پائیں گے
پیڑ کٹے اور پیڑ لگے
تب جا کے سنسار بچے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.