جنگل
زیست کی تنگ پیچیدہ راہوں پہ
چلتے ہوئے
ایسے پر ہول جنگل میں ہم کس طرح آ گئے
سخت سوکھی زمیں پر
درختوں کے بوجھل تنے
تند خو اور وحشی درندوں کی مانند
پنجے جمائے کھڑے ہیں
ان کی سوکھی ہوئی زرد شاخوں
انسانوں کے ہاتھ پاؤں
کٹے سر
کٹے جسم
بازو
بازوؤں اور ٹانگوں سے محروم دھڑ
ناک نقشے سے محروم چہرے
ہر اک سمت لٹکے ہوئے ہیں
راستے منتشر
پر خطر راستے
ایک مبہم اندھیرے میں گم ہیں
اور ان راستوں میں
کئی انگلیاں
کان
الجھے ہوئے بال
ویران آنکھیں
چھدے ہونٹ
ہر سمت بکھرے ہوئے ہیں
زخم خوردہ بھٹکتے قدم
خود بخود رک گئے ہیں
کوئی انسان مجھ کو ملے مگر
تو پوچھوں کہ کیا میں ابھی تک
وہی شعلہ اندام سیماب پا
ذوق ہستی سے بیتاب درد آشنا
ایک انسان ہوں
یا فقط کوئی ٹوٹا ہوا ہاتھ
بازو
کوئی ناک نقشے سے محروم چہرہ ہوں میں
اور یوں
سخت شاخوں سے لٹکی ہوئی ہوں
کوئی سرشار جذبوں کی جوئے رواں ہو
تو دیکھوں
کہ کیا میری آنکھوں کی گہرائیوں میں
ابھی تک وہی جرأت دید ہے
رفعت ذوق پرواز ہے
اور کیا میرے اعضا کے خم
اور میرے خد و خال ابھی
زندگی کی صراحت کے غماز ہیں
لذت آگہی کے امیں ہیں
یا کہ اب میں بھی بس
کچھ کٹے کان
ویران آنکھیں
چھدے ہونٹ
بکھرے ہوئے بال ہوں
اور یوں
نیم تاریک گمنام راہوں میں
بکھری ہوئی ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.