جنم دن
رات کا شاید ایک بجا ہے
پاؤں تھکے ہیں سر بھاری ہے
آنکھیں ایک ان دیکھے خدا سے
نیند کی بھکشا مانگ کے بے حد شرمندہ ہیں
پچھلے پینتالیس کڑے کوسوں میں کیا کیا موڑ آئے ہیں
ہر چوراہا
کیا کیا وہم و گماں لایا ہے
کیا آوازیں
کانوں کے پردوں کو اکثر چھید گئی ہیں
کیا کیا منظر
دھند بھری آنکھوں نے دیکھے
کیسی ضربیں ذہن نے کھائیں
کتنے کوس ابھی چلنا ہے
کیا چوراہے کیسی چوٹیں
وہم و گماں آوازیں منظر
میرا رستہ دیکھے رہے ہیں
ان کو گننا ان کی فکر میں ڈوبے رہنا لا حاصل ہے
اصلی بات بس اتنی سی ہے
ختم سفر تک
اپنی لاش کو کاندھا دینے کی توفیق نہیں ہے مجھ میں
اور اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے
اکثر لوگ کہا کرتے ہیں
ہیرا ہیرے سے کٹتا ہے
زہر کو مارو زہر سے لیکن
میں وہ ہیرا کہاں سے لاؤں
جس سے سفر بھی کٹ سکتا ہے
ایسا زہر کہاں ملتا ہے
جس سے فاصلے مر جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.