وہ ایک طرز سخن کی خوشبو
وہ ایک مہکا ہوا تکلم
لبوں سے جیسے گلوں کی بارش
کہ جیسے جھرنا سا گر رہا ہو
کہ جیسے خوشبو بکھر رہی ہو
کہ جیسے ریشم الجھ رہا ہو
عجب بلاغت تھی گفتگو میں
رواں تھا دریا فصاحتوں کا
وہ ایک مکتب تھا آگہی کا
وہ علم و دانش کا مے کدہ تھا
وہ قلب اور ذہن کا تصادم جو گفتگو میں رواں دواں تھا
وہ اس کے الفاظ کی روانی
وہ اس کا رک رک کے بات کرنا
وہ شعلۂ لفظ اور معانی
کہیں لپکنا کہیں ٹھہرنا
ٹھہر کے پھر وہ کلام کرنا
بہت سے جذبوں کی پردہ داری
بہت سے جذبوں کو عام کرنا
جو میں نے پوچھا
گزشتہ شب کے مشاعرے میں بہت سے شیدائی منتظر تھے
مجھے بھی یہ ہی پتہ چلا تھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں
مگر ہوا کیا
ذرا توقف کے بعد بولے نہیں گیا میں
نہ جا سکا میں
سنو ہوا کیا
میں خود کو مائل ہی کر نہ پایا
یہ میری حالت میری طبیعت
پھر اس پہ میری یہ بد مزاجی و بد حواسی
یہ وحشت دل
میاں حقیقت ہے یہ بھی سن لو کہ اب ہمارے مشاعرے بھی
نہیں ہیں ان وحشتوں کے حامل
جو میری تقدیر بن چکی ہیں
جو میری تصویر بن چکی ہیں
جو میری تقصیر بن چکی ہیں
پھر اک توقف
کہ جس توقف کی کیفیت پر گراں سماعت گزر رہی تھی
اس ایک ساعت کا ہاتھ تھامے یہ اک وضاحت گزر رہی تھی
ادب فروشوں نے جاہلوں نے مشاعرے کو بھی اک تماشہ بنا دیا ہے
غزل کی تقدیس لوٹ لی ہے ادب کو مجرا بنا دیا ہے
سخن وروں نے بھی جانے کیا کیا ہمارے حصے میں رکھ دیا ہے
ستم تو یہ ہے کہ چیخ کو بھی سخن کے زمرے میں رکھ دیا ہے
الٰہی توبہ
سماعتوں میں خراشیں آنے لگی ہیں اب اور شگاف ذہنوں میں پڑ گئے ہیں
میاں ہمارے قدم تو کب کے زمیں میں خفت سے گڑ گئے ہیں
خموشیوں کے دبیز کہرے سے چند لمحوں کا پھر گزرنا
وہ جیسے خود کو اداسیوں کے سمندروں میں تلاش کرنا
وہ جیسے پھر سرمئی افق پر ستارے الفاظ کے ابھرنا
یہ زندگی سے جو بے نیازی ہے کس لیے ہے
یہ روز و شب کی جو بد حواسی ہے کس لیے ہے
بس اتنا سمجھو
کہ خود کو برباد کر چکا ہوں
سخن تو آباد خیر کیا ہو
مگر جہاں دل دھڑک رہے ہوں وہ شہر آباد کر چکا ہوں
بچا ہی کیا ہے
تھا جس کے آنے کا خوف مجھ کو وہ ایک ساعت گزر چکی ہے
وہ ایک صفحہ کہ جس پے لکھا تھا زندگی کو وہ کھو چکا ہے
کتاب ہستی بکھر چکی ہے
پڑھا تھا میں نے بھی زندگی کو
مگر تسلسل نہیں تھا اس میں
ادھر ادھر سے یہاں وہاں سے عجب کہانی گڑھی گئی تھی
سمجھ میں آئی نہ اس لیے بھی کے درمیاں سے پڑھی گئی تھی
سمجھتا کیسے
نہ فلسفی میں نہ کوئی عالم
عقوبتوں کے سفر پہ نکلا میں اک ستارہ ہوں آگہی کا
اجل کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اک استعارہ ہوں زندگی کا
عتاب نازل ہوا ہے جس پر میں وہ ہی معتوب آدمی ہوں
ستم گروں کو طلب ہے جس کی میں وہ ہی مطلوب آدمی ہوں
کبھی محبت نے یہ کہا تھا میں ایک محبوب آدمی ہوں
مگر وہ ضرب جفا پڑی ہے کہ ایک مضروب آدمی ہوں
میں ایک بیکل سا آدمی ہوں بہت ہی بوجھل سا آدمی ہوں
سمجھ رہی ہے یہ دنیا مجھ کو میں ایک پاگل سا آدمی ہوں
مگر یہ پاگل یہ نیم وحشی خرد کے ماروں سے مختلف ہے
جو کہنا چاہا تھا کہہ نہ پایا
کہا گیا جو اسے یہ دنیا سمجھ نہ پائی
نہ بات اب تک کہی گئی ہے
نہ بات اب تک سنی گئی ہے
شراب و شعر و شعور کا جو اک تعلق ہے اس کے بارے میں رائے کیا ہے
سنا ہے ہم نے کہ آپ پر بھی بہت سے فتوے لگے ہیں لیکن
شراب نوشی حرام ہے تو
یہ مسئلہ بھی بڑا عجب ہے
میں ایک میکش ہوں یہ تو سچ ہے
مگر یہ میکش کبھی کسی کے لہو سے سیراب کب ہوا ہے
ہمیشہ آنسو پیے ہیں اس نے ہمیشہ اپنا لہو پیا ہے
یہ بحث چھوڑو حرام کیا ہے حلال کیا ہے عذاب کیا ہے ثواب کیا ہے
شراب کیا ہے
اذیتوں سے نجات ہے یہ حیات ہے یہ
شراب و شب اور شاعری نے بڑا سہارا دیا ہے مجھ کو
سنبھال رکھا شراب نے اور رہی ہے محسن یہ رات میری
اسی نے مجھ کو دئے دلاسے سنی ہے اس نے ہی بات میری
ہمیشہ میرے ہی ساتھ جاگی ہمیشہ میرے ہی ساتھ سوئی
میں خوش ہوا تو یہ مسکرائی میں رو دیا تو یہ ساتھ روئی
یہ شعر گوئی ہے خود کلامی کا اک ذریعہ
اسی ذریعہ اسی وسیلہ سے میں نے خود سے وہ باتیں کی ہیں
جو دوسروں سے میں کہہ نہ پایا
حرام کیا ہے حلال کیا ہے یہ سب تماشے ہیں مفتیوں کے
یہ سارے فتنے ہیں مولوی کے
حرام کر دی تھی خود کشی بھی کہ اپنی مرضی سے مر نہ پائے
یہ مے کشی بھی حرام ٹھہری کہ ہم کو اپنا لہو بھی پینے کا حق نہیں ہے
کہ اپنی مرضی سے ہم کو جینے کا حق نہیں ہے
کسے بتائیں
ضمیر و ظرف بشر پہ موقوف ہیں مسائل
سمندروں میں انڈیل جتنی شراب چاہے
نہ حرف پانی پہ آئے گا اور نہ اوس کی تقدیس ختم ہوگی
تو مے کشی کو حرام کہنے سے پہلے دیکھو
کہ پینے والے کا ظرف کیا ہے ہیں کس کے ہاتھوں میں جام و مینا
یہ نکتہ سنجی یہ نکتہ دانی جو مولوی کی سمجھ میں آتی تو بات بنتی
نہ دین و مذہب کو جس نے سمجھا نہ جس نے سمجھا ہے زندگی کو
طہورا پینے کی بات کر کے حرام کہتا ہے مے کشی کو
جو دین و مذہب کا ذکر آیا تو میں نے پوچھا
کہ اس حوالے سے رائے کیا ہے
یہ خود پرستی خدا پرستی کے درمیاں کا جو فاصلہ ہے
جو اک خلا ہے یہ کیا بلا ہے
یہ دین و مذہب فقط کتابیں
بجز کتابوں کے اور کیا ہے
کتابیں ایسی جنہیں سمجھنے کی کوششیں کم ہیں اور زیادہ پڑھا گیا ہے
کتابیں ایسی کہ عام انساں کو ان کے پڑھنے کا حق ہے لیکن
انہیں سمجھنے کا حق نہ ہرگز دیا گیا ہے
کہ ان کتابوں پہ دین و مذہب کے ٹھیکیدار اجارہ داروں کی دسترس ہے
اسی لیے تو یہ دین و مذہب فساد د فتنہ بنے ہوئے ہیں
یہ دین و مذہب
جو علم و حکمت کے ساتھ ہو تو سکون ہوگا
جو دسترس میں ہو جاہلوں کی جنون ہوگا
یہ عشق کیا ہے یہ حسن کیا ہے
یہ زندگی کا جواز کیا ہے
یہ تم ہو جی جی کے مر رہے ہو یہ میں ہوں مر مر کے جی رہا ہوں
یہ راز کیا ہے
ہے کیا حقیقت مجاز کیا ہے
سوائے خوابوں کے کچھ نہیں ہے
بجز سرابوں کے کچھ نہیں ہے
یہ اک سفر ہے تباہیوں کا اداسیوں کی یہ رہ گزر ہے
نہ اس کو دنیا کا علم کوئی نہ اس کو اپنی کوئی خبر ہے
کبھی کہیں پر نظر نہ آئے کبھی ہر اک شے میں جلوہ گر ہے
کبھی زیاں ہے کبھی ضرر ہے
نہ خوف اس کو نہ کچھ خطر ہے
کبھی خدا ہے کبھی بشر ہے
ہوا حقیقت سے آشنا تو یہ سوئے دار و رسن گیا ہے
کبھی ہنسا ہے یہ زیر خنجر کبھی یہ سولی پہ ہنس دیا ہے
کبھی یہ گل نار ہو گیا ہے سناں پہ گفتار ہو گیا ہے
کبھی ہوا ہے یہ غرق دریا
کبھی یہ تقدیر دشت و صحرا
رقم ہوا ہے یہ آنسوؤں میں
کبھی لہو نے ہے اس کو لکھا
حکایت دل حکایت جاں حکایت زندگی یہی ہے
اگر سلیقے سے لکھی جائے عبارت زندگی یہی ہے
یہ حسن ہے اس دھنک کی صورت
کہ جس کے رنگوں کا فلسفہ ہی کبھی کسی پر نہیں کھلا ہے
یہ فلسفہ جو فریب پیہم کا سلسلہ ہے
کہ اس کے رنگوں میں اک اشارہ ہے بے رخی کا
اک استعارہ ہے زندگی کا
کبھی علامت ہے شوخیوں کی
کبھی کنایہ ہے سادگی کا
بدلتے موسم کی کیفیت کے ہیں رنگ پنہاں اسی دھنک میں
کشش شرارت و جاذبیت کے شوخ رنگوں نے اس دھنک کو عجیب پیکر عطا کیا ہے اک ایسا منظر عطا کیا ہے
کہ جس کے سحر و اثر میں آ کر
لہو بہت آنکھیں رو چکی ہیں بہت تو بینائی کھو چکی ہیں
بصارتیں کیا بصیرتیں بھی تو عقل و دانائی کھو چکی ہیں
نہ جانے کتنے ہی رنگ مخفی ہیں اس دھنک میں
بس ایک رنگ وفا نہیں ہیں
اس ایک رنگت کی آرزو نے لہو رلایا ہے آدمی کو
یہی بتایا ہے آگہی کو
یہ اک چھلاوا ہے زندگی کا
حسین دھوکہ ہے زندگی کا
مگر مقدر ہے آدمی کا
فریب گندم سمجھ میں آیا تو میں نے جانا
یہ عشق کیا ہے یہ حسن کیا ہے
یہ ایک لغزش ہے جس کے دم سے حیات نو کا بھرم کھلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.